ڈاکٹر اے کیوخان انسٹی ٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ کا جو پودامیں نے لگایاتھا

آج وہ ایک تناور درخت بن چکاہے،ڈاکٹر عبدالقدیر خان

پیر 17 دسمبر 2018 19:23

ڈاکٹر اے کیوخان انسٹی ٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ کا جو پودامیں نے لگایاتھا
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 دسمبر2018ء) معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت زیادہ خوشی ہورہی ہے کہ آج سے 18سال قبل ڈاکٹر اے کیوخان انسٹی ٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ کا جو پودامیں نے لگایاتھا آج وہ ایک تناور درخت بن چکاہے اور ریسرچرز کی صورت میں بہت اچھے پھل دے رہاہے ۔

ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے لیکن افسو س اس بات کا ہے کہ ان کی صلاحیتوں کو بروئے کا رنہیں لایا جاتا۔اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بیشمار وسائل سے مالامال کیا ہے لیکن ہم ان وسائل کو استعمال نہیں کررہے ہیں۔دیگر ممالک کی جامعات کابہترین جامعات کی فہرست میں شامل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ علم قدرکرتے ہیں۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جہاں بھی جائیں آلات کا استعمال، ان پر عبوراوراصولوں کے بارے میں معلومات ہونی چاہیئے یہی کامیابی کا راستہ ہے۔

(جاری ہے)

جو طلبہ بیرون ممالک جاتے ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ ان دو تین سالوں میں خوب محنت کریں کیونکہ ان کی یہ محنت پھر زندگی بھر ان کے کام آئے گی۔ انسٹی ٹیوٹ ہذا کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر عابد اظہر کی قیادت میں میں تیزی سے ترقی کے منازل طے کررہاہے جو لائق تحسین ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ کراچی کے ڈاکٹر اے کیوخان انسٹی ٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ کے زیر اہتمام انسٹی ٹیوٹ ہذا کی سماعت گاہ میں منعقدہ فورتھ ڈاکٹر اے کیوخان وِنٹراسکول ورکشاپ بعنوان- : ’’ٹولز اینڈ تکنیکس اِن بائیوٹیکنالوجی‘‘ کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

جامعہ کر اچی کے ڈاکٹر اے کیوخان انسٹی ٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ کے پروفیسر ڈاکٹر انور علی صدیقی نے کہا کہ فنڈنگ ایجنسیوں کو اساتذہ اور محققین کی تحقیق کے معیار کو جانچنے کی ضرورت ہے،کیونکہ سائنسی تحقیق کا براہ راست اثر معاشرے کی فلاح وبہبود کے لئے ہونا چاہیئے ،اسی لئے امپکٹ فیکٹر کے بجائے تحقیق کے امپکٹ کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے،سائنسی تحقیق کے معاشرے پر خاطر خواہ اثرات نظر نہیں آتے۔

پاکستان کی جانب سے شائع ہونے والے تحقیقی پر چوں کی تعداد میں کا فی اضافہ ہورہاہے لیکن اس کے معاشرے پر خاطر خواہ اثرات نظر نہیں آتے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی ورکشاپس کا تواتر سے انعقاد لائق تحسین ہے۔سینیٹر عبدالحسیب خان نے کہا کہ تھیلیسیمیا کا بل پاس کرانے میںمجھے 13 سال کا طویل عرصہ لگا۔معاشی ،تعلیمی اور صحت کے شعبوں کو دیکھ کر افسوس ہوتاہے کیونکہ گذشتہ کئی سالوں سے ان میں کوئی بہتری نہیں آئی ۔

بدقسمتی سے پاکستان میں ریسر چ اینڈ ڈیولپمنٹ کلچر عام نہیں جس کی وجہ سے ہم آج بھی بہت شعبوں میں دوسروں کی تحقیق کے محتاج ہیں۔ملک کی انڈسٹریز اور کارپوریٹ سیکٹرز حکومت کو سات ہزار ارب روپے سالانہ مہیا کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے معیشت ،تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں کی بہتری کے لئے عملاً کوئی کام نہیں کیا جاتا۔ڈاکٹر اے کیوخان انسٹی ٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ،جامعہ کراچی ملک کے معتبر ترین اعلیٰ تعلیمی اداروں میں شمار کیا جاتاہے جس کا سہرا ڈاکٹر عابد اظہر کی سحر انگیز قیادت اور ان کے اساتذہ کی تدریسی وتحقیقی صلاحیتوں کو جاتاہے۔

ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اے کیوخان انسٹی ٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈجینیٹک انجینئرنگ پروفیسر ڈاکٹر عابد اظہر نے کہا کہ انسٹی ٹیوٹ ہذا باقاعدگی سے تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کرتاہے جس میں نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک سے ریسرچرز شرکت کرتے ہیں جو لائق تحسین ہے اور یہاں پر تمام طلبہ کو یکساں سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ نئی ٹیکنالوجیز کے فروغ کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ مذکورہ ٹیکنالوجیز انسانی صحت کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے بھرپور طریقے سے استعمال کی جائیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے تاکہ انسانی نسل سائنس کے ثمرات سے فیضیاب ہوتی رہے۔مذکورہ تربیت میں کراچی سمیت پاکستان کی جامعات کے ریسرچرز شریک ہیں جو ہمارے لئے باعث افتخار ہے ۔تقریب کے اختتام پر شرکاء میں سرٹیفیکٹ تقسیم کئے گئے اوربدست ڈاکٹرعبدالقدیر خان حج وعمرہ کمپیوٹرائز قرعہ اندازی کی گئی جس میں حج کے لئے محمد شریف اور عمرے کے لئے شجاع احمد کے ناموں کا اعلان کیا گیا۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں