جب اسٹبلشمنٹ پارلیمنٹ کو چلانے کا کردار ادا کرتارہے گا تب تک ہم خود کو آزاد نہیں سمجھ سکتے، مولانا فضل الرحمن

اہلوں سے نااہلوں کو اقتدار کی منتقلی کیا یہ تبدیلی ہے بدقسمتی سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں مصلحت کا شکار ہوئیں ،اسلئے ہم تنہاہی میدان میں نکل آئے ہماری جدوجہد جاری رہے گی، سندھ سوشل میڈیا کنونشن سے خطاب ہر مسلمان کو قرآن و حدیث کی روزنی میں اپنا جائزہ لینا چاہئے، اوریا جان مقبول سوشل میڈیا کے استعمال کا مقصد لوگوں کو دین کی طرف بلانا ہے ۔ میٖڈیا تب سے انسان کا بنیادی ضرورت ہے جب سے یہ کائینات وجود میں آئی ہے ،مولانا عطاء الرحمن

جمعہ 22 فروری 2019 22:57

جب اسٹبلشمنٹ پارلیمنٹ کو چلانے کا کردار ادا کرتارہے گا تب تک ہم خود کو آزاد نہیں سمجھ سکتے، مولانا فضل الرحمن
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 فروری2019ء) جمعیت علمائے اسلام کے سربرا ہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ جب تک عام آدمی کو اقتدار کی تبدیلی کا حق نہیں دیا جاتا اور اسٹبلشمنٹ پارلیمنٹ کو چلانے کا کردار ادا کرتارہے گا تب تک ہم خود کو آزاد نہیں سمجھ سکتے۔ اہلوں سے نااہلوں کو اقتدار کی منتقلی کیا یہ تبدیلی ہے بدقسمتی سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں مصلحت کا شکار ہوئیں اسلئے ہم تنہاہی میدان میں نکل آئے ہماری جدوجہد جاری رہے گی ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جے یو آئی سندھ کے زیر اہتمام کراچی کے نجی آڈیٹوریم میں -’’سندھ سوشل میڈیا کنونشن‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،جمعیت علمائے اسلام (ف) سندھ کے زیر اہتمام پہلے سوشل میڈیا کنونشن سے متحدہ مجلس عمل کے ترجمان شاہ اویس نورانی ، سینیٹر مولانا عطاء الرحمن ، معروف صحافی نذیر لغاری ،معروف کالم نگار و اینکر پرسن اوریا مقبول جان ، معروف اینکر انیق احمد ، اینکر پرسن ڈاکٹر دانش ، مولانا راشد سومرو ، محمد اسلم غوری ، قاری محمد عثمان ، حاجی عبد المالک ٹالپر سمیت جے یوآئی سندھ میڈیا سیل کے انچارج سمیع الحق سواتی سمیت معروف بلاگرز اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ نے بھی خطاب کیا ۔

(جاری ہے)

سوشل میڈیا کنونشن میں تین مختلف نشستیں رکھی گئی تھیں ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ابلاغیات میں سوشل میدیا کا اہم کردار ہے اور ہمیں اس کا ادراک ہے ۔ دین اسلام کے فروغ کے لیے ہر دور کے وسائل کو استعمال کیا گیا ہے ۔ دین اسلام کے آغاز میں جب تک وسائل کی کمی تھی اس وقت بھی وسائل استعمال کیے گئے ۔ کسی اطلاع کو عام کرنے کے لیے آگ لگائی جاتی تھی ، ڈھول بجایا جاتا تھا لیکن پھر آذان دیا جانے لگا ۔

اسلام دین فطرت ہے ، آپ ﷺ نے اپنے قول اور عمل کے ذریعے جو تشریح کی ہے وہی حق اور سچ ہے ۔ شیطانی قوتین جب قرآن اور دین کی حقانیت کو رد نہیں کر سکے تو قرآن لانے والے شخص کو متنازعہ بنانے کی سازش کر نے لگے ، سب سے پہلے جبرائیل علیہ السلام پر سوالات اٹھانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے خود ان حقانیت بیان کی ۔ آج بھی دین کی بات کرنے والا اس کی جس طرح کردار کشی کی جا رہی ہے اور ہمارا میڈیا ایسے شخص کو قوم کو جس انداز میں پیش کیا جاتا ہے ، آپ سمجھیں کہ اس طرح کی حالات سے صرف آپ اور ہم نہیں گزر رہے ہیں بلکہ ہم سے پہلے بھی تصویر کا رخ تبدیل کرنے کی سازش کی گئی ۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں پروپیگنڈہ کرنے سے منع فرمایا ہے ، ایسے معاملات میں اپنے اولوالامر سے رابطہ ضروری ہوجاتا ہے ۔ سوشل میڈیا پر جس تیزی سے جھوٹ کو پھیلایا جاتا ہے ، یہی کچھ پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے ۔ سوشل میڈیا کے محاذ پر اپنے جماعت کے نظریات جو قرآن و حدیث سے اخذ کیے گئے ہیں ، ان سے رہنمائی لینی ہے ۔ آپ نے ایسے مووقع پر سنجدگی سے کام لینا ہے ۔

آپ ﷺ اور صحابہ کرام کی شان میں گستاخیاں کی گئیں لیکن ان کو احادیث کی کتب میں جگہ نہیں دی گئی تو پھر آج یہ طرز عمل کیوں سیاست انبیاء کی وراثت ہے ، جس طرح ہم منبر رسول کو رسول کی وراثت سمجھتے ہیں ، تو پھر منصب سیاست ، منصب خلافت اور منصب امامت بھی تو رسولوں کی سیاست ہے ۔ مورثی سیاست کا لفظ مغرب سے آیا ہے ، وہاں تو نسب ختم ہوچکا ہے اگر وہاں یہ بات یہاںکی جاتی ہے تو درست بھی ہے لیکن ہمارے جو جتنے بڑے نسب کا ہے اس کا حق بھی بنتا ہے ۔

موروثیت انبیاء کرام میں بھی چلتی رہی ہے ۔ اسلام امین اور معیشت کی بات کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اپنی ااطاعت پر امن اور اور بہتر معیشت کی بات کرتے ہیں ۔ آج نہ امن ہے نہ ہی معیشت ہے لیکن اس کے باوجود اطاعت کا کہا جا رہا ہے ، ٹیکس وصولی کا حکم جاری ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ ، مہنے میں روز مرہ کے حساب سے یومیہ پندرہ ارب کے قرض لے رہے ہیں یہ ترقی معکوس ہے ، ہمارا وطیرہ یہ ہونا چاہئے کہ اگر ہمارے نظام میں فیصلہ کن قوت عوام کا ووٹ ہے تو ہمیں قوم کو اعتماد میں لینا ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ انگریز کے دور میں علم دینی و عصری کے نام پر تقسیم کیا گیا ،حالانکہ علم میں دینی و عصری کا کوئی فرق نہیں ۔ قرآن مجید میں فنون کی تعلیم کا نہ صرف زکر کیا گیا ہے بلکہ اسے انبیاء کرام سے منسوب کیا گیا ہے ۔ اقتدار کو مقصد سمجھ لینا غلط ہے اور مقصد تک اقتدار کو سہارا لینا درست ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں اپنے آئینی اور قانونی دائرے سے تجاوز کرتا ہوں تو مجھے غلط کہا جاتا ہے لیکن اگر طاقتور اپنے حلف سے تجاوز کرتا ہے تو اسے غلط کہنے سے منع کیا جاتا ہے ، جب آپ وووٹ کے بجائے بیلٹ بکس چوری کر کے الیکشن چوری کریں گے تو ہمارے پاس سواے اس کے کوئی روستہ نہیں رہتا کہ ہم عوام میں جائین۔

بدقستمی سے ہماری بڑی جماعتیں مصلحتوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ہم عوام میں گئے ہیں اور انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی ، دفاعی اور اقتصادی طور پر آزاد نہیں ہیں ۔ عالمی قوتیں ترقی پزیر ممالک کو اپنے زیر نگیں رکھنے کے لیے انہیں سیاسی اور اقتصادی طور پر اپنا محکوم رکھتے ہیں ۔ ترقی پزیر ممالک میں ان ممالک کے قوانین کو غیر موثر کر کے اپنے قوانین لاگو کیے جاتے ہیں ۔

آج پاکستان میں قانون پر عمل درآمد ناممکن بنا دیا گیا ہے ۔ توہین رسالت کا قانون اس کی واضح مثال ہے کہ اگر توہین رسالت کا الزام ثابت نہیں کیا جاتا تو الزام لگانے والے کو وہی سزا دی جائے ۔ ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کن بنیادوںاور وجوہات کی بنیاد پر آسیہ کا فیصلہ سنایا گیا ، مجھے اس بات سے غرض ہے کہ ہمارا عدلیہ بیرونی دبائو پر فیصلے کیوں سنا رہی ہے ۔

ہمارا ملک آج بھی عالمی مالیاتی قوتوں کے رحم و کرم پر ہے ۔ سوشل میڈیا پر ہمیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہے ۔ ہم نے عوام کو اس جبر سے آزادی دلانی ہے ۔ نئی نسل کو اس عزم پر لانا ہے کہ وہ اس جبر کوقبول نہیں کریں ۔ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ سوشل میڈیا کے استعمال کا مقصد لوگوں کو دین کی طرف بلانا ہے ۔

میٖڈیا تب سے انسان کا بنیادی ضرورت ہے جب سے یہ کائینات وجود میں آئی ہے ، جس طرح اللہ تعالیٰ نے انفرادی زندگی گزارنے کے لیے رہنمائی دی ہے ، اسی طرح اللہ نے ہمیں اجتماعی زندگی گزارنے کے لیے بھی رہنمائی عطاء کی ہے ۔سوشل میڈیا پر اپنا پیغام عام کرنے کے لیے میڈیا کے تقاضوں کو ضرور اپنائیں لیکن جن امور سے دین اسلام نے ہمیں منع کیا ہے ، ان سے بچنا لازمی ہے ۔

معروف اینکر پرسن ڈاکٹر دانش نے کنونشین سے خطاب میں کہا کہ سوشل میڈیا کے استعمال کو اگر آپ سنجیدہ اور تعمیری انداز میں لیں ، تو اس کے لیے بنیادی ضرورت تحقیق ہے ، اگر کسی خبر سے کسی کی تذلیل یا تحقیر یا شر و فساد کا خطرہ ہو تو اس سے گریز لازمی ہے ۔ سوشل میڈیا مین اسٹریم میڈیا سے مختلف ہے ۔ سوشل میڈیا ان گائیڈڈ میزائل ہے ۔ اب جس کے پاس کے موبائل ہے وہی صحافی ہے ، کیمرہ مین ، رپورٹر اور اینکر بن جاتا ہے ۔

اگر بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھا گیا تو بہتری ہے ، کسی بھی خبر کو بریک کیا جائے تو چند لمحوں میں لاکھوں ، کروڑوں لوگ اسے دیکھ کر اپنا زہن بنا لیتے ہیں ۔ ہمارے لیے نظرئیہ پاکستان اور اسلام کی بہت اہمیت ہے ۔ اگر اسلام اور نظرئیہ پاکستان سے صرف نظر کیا جائے تو پھر مسائل پیدا ہوں گے ۔ عاطف قادیانی کی تقرری کے وقت وفاقی وزیر اطلاعات کی حالات سے بے خبری نے انہیں شرمندہ کیا۔

فتنہ قادیانیت کے حوالے سے وفاقی وزیر نہ صرف دین اسلام بلکہ پاکستان کے آئین سے بھی بے خبر نکلے ۔ آپ لوگوں نے دین اسلام اور نظرئیہ پاکستان کا دفاع کرنا ہے لہذا اپ کو بھی اس حوالے سے علم ضرور حاصل کرنا چاہئے ۔ مین اسٹریم میڈیا کی پکڑ موجود ہے ، لیکن سوشل میڈیا اس سے مختلف ہے ، لہذا ضروری ہے کہ جو بھی خبر آپ کو ملے اس کی تحقیق کریں ، اس حوالے سے ریسرچ کریں ۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ آج ہمارے ارکان پارلیمنٹ آئین ، اسلام اور نظرئیہ پاکستان سے بے خبر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ نظرئیہ پاکستان اور آئین پاکستان کی مخالفت بھی یہی ارکان پارلیمان کرتے ہیں ۔ جس طرح ارکان پارلیمان کے لیے ریسرچ ضروری ہے ، اسی طرح آپ کے لیے بھی لازم ہے کہ اس حوالے سے خود کو باخبر رکھیں ۔ معروف اینکر پرسن ، اوریا مقبول جان نے اس کنونشن میں خطاب کے دوران کہا کہ ہر مسلمان کو قرآن و حدیث کی روزنی میں اپنا جائزہ لینا چاہئے ۔

ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ میڈیا ہر سال ایک لاکھ ملحد پیدا کر رہا ہے ۔ ہمارا اصل مقابلہ ان سے ہے ۔ مولانا فضل الرحمن صرف پاکستان کے نہیں عالم اسلام کے رہنما ہے ، اس نسبت سے آپ کا مقابلہ ان عالمی قوتوں سے ہے جو سالانہ ایک لاکھ ملحد پیدا کر رہے ہیں۔ وطن اور زبان کے معاملہ ہمارا نہیں ، ہم اسلام کے نام لیوا ہے ۔ ہر ملک ایک قوم ، قبیلے اور زبان کی پہچان رکھتا ہے لیکن ہمارے ملک کلمہ سے پہچانا جاتا ہے ۔

دنیا میں پانچ ممالک نے عالمی اداروں کے قرضے واپس کرنے سے انکار کیا ،افغانستان میں عالمی طاقتوں کا غرور توڑا گیا ۔ اس میڈیا پر آج اس شخص کو روکا جاتا ہے جس کے ماتھے پر سجدہ کا نشان ہوتا ہے ۔ معروف اینکر پرسن انیق احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ دین کی تبلیغ کے طریقے ہر دور میں مختلف رہے ہیں لیکن اصول ہمیشہ ایک ہی رہے ہیں ۔ آ ج میڈٰا اور سوشل میڈیا ہائوس اریسٹ ہے ۔

میڈیا سے متعلق ذمہ داریاں آسان نہیں۔ ایک تاثر یہ ہے کہ مذہبی ذہن رکھنے والا دور کے تقاضوں سے بے خبر رہتا ہے ۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ دین مکمل ہوگیا ہے اور میرے دین کے پاس معاشی نظام موجود ہے ، سماجی نظام ، عسکری نظام موجود ہے ۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہمیں لوگوں کو سمجھانا ہوگا کہ دین اسلام کا نظام حکومت کیا ہے ۔ آج ریاست مدینے کی بات کی جاتی ہے لیکن اس بات کو نہیں دیکھا جاتا کہ ریاست مدینے کے لیے آپ ﷺ نے تیرہ سال تک رجال کار پیدا کیے ۔

سوشل میڈیا پر دین اسلام کا پیغام عام کیا جائے ، کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا پر کسی کا کنٹرول نہیں حالامکہ یہ کنٹرولڈ میڈیا ہے ۔ اسی طرح مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے بھی یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں دینی اسلام کو بطور نظام نفاذ کبھی عوامی مطالبہ نہیں رہا ، جبکہ حقیقت یہی ہے کہ اس ملک کے لیے قربانیاں ہی اسلام کے نام پر دی گئی ہیں ۔

بدقسمتی کی بات ہے کہ اس ملک میں عاطف میاں جیسے لوگوں مسلمانوں پر مسلط کیا جاتا ہے ۔ اگر ہم نے حقیقی معنوں میں تبدیلی لانی ہے تو ہمیں اپنے آپ کو منظم کرنا ہوگا ۔ ترکی میں طیب اردگان نے پہلے لوگوں کو منظم کیا ، ہمیں پاکستان میں بھی اپنے آپ کو منظم کرنا ہوگا اور سوشل میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کرنا ہوگا۔ ہمیں سوشل میڈیا پر کسی کو لاجواب کرنے کی نہیں بلکہ قائل کرنے کی ضرورت ہے ۔

اگر ہم لوگوں کو قرآن سے جوڑنے میں کامیاب ہوئے تو انقلاب آجائے گا ۔ اس موقع پر سینئر صحافی نذیر لغاری نے سوشل میڈیا کنونشن سے کہا کہ سوشل میڈیا پر ہر طرح کا مواد موجود ہے ، ہر طرح کے نکتہ نظر رکھنے والے لوگ موجود ہیں ، سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں ۔ سوشل میڈیا کے ٓذریعے ہی ہم باخبر رہتے ہیں اور اپنے پیغام کو عام کرتے ہیں ، اس کا مثال جمعیت علمائے اسلام کے حالیہ ملین مارچ کا ایک سلسلہ ہے ۔

مین اسٹریم میڈیا کے تعاون کے بغیر اس طرح کامیاب اجتماعات سوشل میڈیا کی طاقت سے ہی ممکن ہو سکے ۔ مولانا فضل الر حمن ان چند سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جو پاکستان کو فلاحی ریاست کے طور ہر دیکھنا چاہتے ہیں ، وہ یہ سمجھنے میں حق بجناب ہیں کہ ایک سیکورٹی ریاست ہمارے مسائل کا حل نہیں ۔ ہمارے میں کبھی بھی شفاف الیکشن نہیں ہوئے ، معلوم نہیں کیوں الیکشن کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے ، اس ملک کے ساتھ تماشہ کیا جا رہا ہے ۔

ایک حصے کو چور ثابت کیا جا رہا ہے ۔ اس ملک کو فلاحی ریاست بنانا ہوگا ۔ پاکستان کے جعرافیہ کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ لوگوں کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان ہر وقت خطرے میں ہے ، حالانکہ اس ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے انصاف دینا ہے وہ ڈیم بنانے لگ جاتے ہیں ۔ ہسپتال بنانے سمیت واٹر کمیشن کا قیام وہ اپنی ذمہ داری بنا لیتے ہیں ۔

اگر ملک کو اس طرح چلایا جائے گا تو پھر یہ فلاحی ریاست کبھی نہیں بن سکے گا ۔ میڈیا کی آزادی پر کوئی قدغن قبول نہیں لیکن ہمیں بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا ۔ مولانا راشد محمود سومرو نے سندھ بھر سے آنے والے سوشل میڈیا کارکنوں کو خوش آمدید کہا اور اس موقع پر انہوں نے مذید کہا کہ جمعیت علمائے اسلام نے ملک بھر میں کامیاب اجتماعات منعقد کیے ہیں اور اگر قائد کا حکم ہوگا تو لاکھوں انسانوں کا ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر اسلام آباد کے اندر ہوگا ۔

معروف اینکر پرسن ، اوریا مقبول جان نے اس کنونشن میں خطاب کے دوران کہا کہ ہر مسلمان کو قرآن و حدیث کی روزنی میں اپنا جائزہ لینا چاہئے ۔ ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ میڈیا ہر سال ایک لاکھ ملحد پیدا کر رہا ہے ۔ ہمارا اصل مقابلہ ان سے ہے ۔ مولانا فضل الرحمن صرف پاکستان کے نہیں عالم اسلام کے رہنما ہے ، اس نسبت سے آپ کا مقابلہ ان عالمی قوتوں سے ہے جو سالانہ ایک لاکھ ملحد پیدا کر رہے ہیں۔

وطن اور زبان کے معاملہ ہمارا نہیں ، ہم اسلام کے نام لیوا ہے ۔ ہر ملک ایک قوم ، قبیلے اور زبان کی پہچان رکھتا ہے لیکن ہمارے ملک کلمہ سے پہچانا جاتا ہے ۔ دنیا میں پانچ ممالک نے عالمی اداروں کے قرضے واپس کرنے سے انکار کیا ،افغانستان میں عالمی طاقتوں کا غرور توڑا گیا ۔ اس میڈیا پر آج اس شخص کو روکا جاتا ہے جس کے ماتھے پر سجدہ کا نشان ہوتا ہے ۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں