پالیسی ریٹ کو 150بی پی ایس بڑھا کر 12.25 فیصد کرنے کا فیصلہ

پیر 20 مئی 2019 20:06

پالیسی ریٹ کو 150بی پی ایس بڑھا کر 12.25 فیصد کرنے کا فیصلہ
کراچی۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 مئی2019ء) مرکزی بینک نے پالیسی ریٹ کو 150بی پی ایس بڑھا کر 12.25 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیر کو جاری کردہ پالیسی ریٹ پالیسی کے مطابق مارچ 2019ء میں زری پالیسی کمیٹی کے گذشتہ اجلاس کے بعد سے تین نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ اول حکومت ِپاکستان کا عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ اسٹاف کی سطح پر 39 ماہ پر محیط توسیعی فنڈ سہولت کے تحت تقریبا 6 ارب ڈالر کے لیے اتفاق ہوگیا ہے۔

پروگرام کا مقصد معاشی استحکام بحال کرنا اور پائیدار معاشی نمو میں معاونت کرنا ہے اور توقع ہے کہ اس کے نتیجے میں خاصی مزید بیرونی مالکاری(financing) آئے گی۔ دوم مالی سال 18 کی اسی مدت سے موازنہ کیا جائے تو حکومتی قرض کے رجحانات مالی سال19 کے پہلے نو ماہ کے دوران بڑھتے ہوئے مالی خسارے کی عکاسی کرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

علاوہ ازیں خسارے کی مالکاری کے لیے مرکزی بینک پر زیادہ انحصار نے پچھلی زری سختی کے اثر کو ہلکا کردیا ہے ۔

گذشتہ زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس سے اب تک شرح مبادلہ میں 5.93 فیصد کمی آئی ہے اور 20 مئی 2019 کے اختتام پر 149.65 روپے فی امریکی ڈالر پر پہنچ گئی ہے جس سے مضمر معاشی عوامل اور مارکیٹ کے احساسات کے امتزاج کی عکاسی ہوتی ہے۔ حقیقی شعبہ میں اسٹیٹ بینک کے تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 19 میں معاشی نمو سست ہونے جبکہ مالی سال 20 میں کسی قدر بڑھنے کی توقع ہے۔

یہ سست رفتاری زیادہ تر زراعت اور صنعت کی پست نمو کی وجہ سے ہے۔ مالی سا ل 19 میں حقیقی جی ڈی پی نمو کا دوتہائی سے زائد حصہ خدمات سے آنے کی توقع ہے۔ آگے چل کر آئی ایم ایف کی مدد سے چلنے والے پروگرام، شعبہ زراعت میں تیزی اور برآمدی صنعتوں کے لیے حکومتی ترغیبات کے تناظر میں مارکیٹ کے احساسات بہتر ہونے کے طفیل معاشی سرگرمیوں میں بتدریج بحالی کی توقع ہے۔

بیرونی شعبہ میں جولائی تا مارچ مالی سا ل 19 میں پچھلے سال کی اسی مدت کے 13.6 ارب ڈالر کے مقابلے میں جاری کھاتے کا خسارہ کم ہوکر 9.6 ارب ڈالر رہ گیا یعنی 29 فیصد کمی ہوئی۔ اس کمی کا بنیادی سبب درآمدی کمی اور کارکنوں کی ترسیلات ِزر کی بھرپور نمو ہے۔ یہ اثر تیل کی بلند عالمی قیمتوں کی وجہ سے جزوی طور پر زائل ہو گیا۔ نان آئل تجارتی خسارہ جولائی تا مارچ مالی سال 18 کے 13.7 ارب ڈالر سے گھٹ کر جولائی تامارچ مالی سال 19 میں 11.0 ارب ڈالر رہ گیا جس سے جنوری 2018 میں استحکام کی اب تک نافذ کردہ پالیسیوں کے اثر کی عکاسی ہوتی ہے۔

حالیہ اظہاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ برآمدی حجم بڑھنا شروع ہوگیا ہے، گوکہ ناسازگار نرخوں کی بنا پر مجموعی برآمدی وصولیاں نہیں بڑھی ہیں۔ جاری کھاتے میں بہتری اور سرکاری دوطرفہ رقوم کی آمد میں قابل ذکر اضافے کے باوجود جاری کھاتے کے خسارے کی مالکاری میں دشواریاں درپیش رہیں۔ نتیجے کے طور پر ذخائر آخر مارچ 2019 میں 10.5 ارب ڈالر سے کم ہوکر 10 مئی 2019 کو 8.8 ارب ڈالر ہوگئے۔

گذشتہ چند دنوں میں طلب و رسد کے حالات کی بنا پر شرح مبادلہ بھی دباو میں آگئی ۔ اسٹیٹ بینک کے نقطہ نظر سے شرح مبادلہ میں حالیہ اتار چڑھاو ماضی کے جمع شدہ عدم توازن کے مسلسل تصفیے اور کسی حد تک طلب و رسد کے عوامل کے کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ اسٹیٹ بینک صورت ِحال کا بغور جائزہ لیتا رہے گا اور بازار ِمبادلہ میں کسی قسم کے ناگوار تغیر سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کو تیار ہے۔

مزید برآں، ذخائر کی موجودہ سطح مناسب (adequacy)کی معیاری سطح (تین ماہ کی درآمدات کے مساوی)سے نیچے ہے۔ جیسا کہ گذشتہ زری پالیسی بیانات میں کہا گیا، بھرپور ساختی اصلاحات کی ضرورت ہیتاکہ برآمدی شعبوں کی پیداواریت اور مسابقت بہتر ہو اور تجارتی توازن میں بہتری آئے۔مالیاتی شعبہ میں محاصل کی وصولی میں کمی، بجٹ سے بڑھ کر سودی ادائیگیوں اور امن و امان سے متعلق اخراجات کی بنا پر جولائی تا مارچ مالی سال 19 کے دوران مجموعی مالیاتی خسارہ گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں خاصا بلند رہنے کا امکان ہے۔

زری پالیسی کے نقطہ نظر سے مالیاتی خسارے کا بڑھتا ہوا حصہ اسٹیٹ بینک سے قرض لے کر پورا کیا گیا ہی: مطلق لحاظ سے یکم جولائی سے 10مئی مالی سال 19 کے دوران حکومت نے اسٹیٹ بینک سے 4.8 ٹریلین روپے قرض لیے جو پچھلے برس کے اسی عرصے میں لی گئی رقم کا 2.4 گنا ہے۔ اس قرض کا بڑا حصہ (3.7 ٹریلین روپی) کمرشل بینکوں سے ہٹاو کی عکاسی کرتا ہے جو موجودہ شرحوں پر حکومت کو قرض دینے سے ہچکچا رہے تھے۔

اس کے نتیجے میں خسارے کی بڑھی ہوئی تسکیک ( monetization) نے مہنگائی کے دباو میں اضافہ کیا ہے۔ زری شعبہ اور مہنگائی کا منظر نامہ میںزری پالیسی کی حالیہ سختی کے باوجود یکم جولائی تا 10مئی مالی سال 2019 کے دوران نجی شعبے کے قرض میں 9.4 فیصد اضافہ ہوا۔ قرض میں بیشتر اضافہ خام مال کی اضافی قیمتوں کے باعث جاری سرمائے کے لیے تھا۔ زر ِوسیع (ایم ٹو) کی رسد پر بلند حکومتی قرض اور نجی شعبے کے قرضے کا توسیعی اثر بینکاری شعبے کے خالص بیرونی اثاثوں میں کمی کی وجہ سے جزوا زائل ہوگیا۔

مجموعی طور پر یکم جولائی تا 10مئی مالی سال 2019 کے دوران زرِ وسیع کی رسد 4.7 فیصد بڑھ گئی۔ صارف اشاریہ قیمت (CPI) سال بسال بنیاد پر مارچ 2019 میں 9.4 فیصد اور اپریل 2019 میں 8.8 فیصد بڑھا۔اوسط عمومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی جولائی تا اپریل مالی سال 19 میں 7.0 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ پچھلے سال کی اسی مدت میں 3.8 فیصد تھی۔ مزید برآں، ایندھن کی ملکی قیمتوں میں حالیہ اضافے اور غذائی اشیا کے بڑھتے ہوئے نرخوں اور خام مال کی اضافی لاگت کی بنا پر گذشتہ تین ماہ میں سالانہ بنیاد پر (annualized)ماہ بہ ماہ عمومی مہنگائی خاصی بڑھی ہے۔

اس طرح مہنگائی کا دباو کچھ عرصے تک برقرار رہنے کا امکان ہے۔ آئی بی اے ایس بی پی کے تازہ ترین اعتماد صارف سروے سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر گھرانے اگلے چھ ماہ کے دوران بلند مہنگائی کی توقع کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا حالات اور اہم شعبوں کے منظر نامے کے پیش نظر اوسط عمومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی مالی سال 19 میں متوقع طور پر 6.5-7.5فیصد کی حدود میں رہے گی اور مالی سال 20 میں اس سے بھی خاصی بلند رہنے کی توقع ہے۔

مالی سال 20 میں مہنگائی کا یہ منظر نامہ آئندہ بجٹ میں ٹیکسوں میں ردوبدل، بجلی اور گیس کے نرخوں میں ممکنہ تبدیلیوں اور تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں تغیر سے ابھرنے والے کئی خطرات سے مشروط ہے جو مہنگائی میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ یہ منظرنامہ مستقبل بینی(forward-looking) کی بنیاد پر حقیقی شرح سود میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ مذکورہ بالا حالات اور ارتقا پذیر معاشی صورتِ حال کے پیش نظر زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ مندرجہ ذیل اسباب سے ابھرنے والے مہنگائی کے مضمر دباو سے نمٹنے کے لیے مزید پالیسی اقدامات کی ضرورت ہے جن میں عمومی اور مہنگائی کے حالیہ ماہ بہ ماہ بلند اعدادوشمار، شرح مبادلہ میں حالیہ کمی، مالیاتی خسارے کی بلند سطح اور اس کی بڑھی ہوئی تسکیک، یوٹیلٹی نرخوں میں ممکنہ ردوبدل شامل ہیں۔

اس تناظر میں زری پالیسی کمیٹی نے 21 مئی 2019ء سے پالیسی ریٹ کو 150بی پی ایس بڑھا کر12.25فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں