اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا پالیسی ریٹ 13.25 فیصد کرنے کا فیصلہ

منگل 16 جولائی 2019 21:37

اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا پالیسی ریٹ 13.25 فیصد کرنے کا فیصلہ
کراچی۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 جولائی2019ء) اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زری پالیسی کمیٹی نے اپنے منگل کو منعقدہ اجلاس میں پالیسی ریٹ 100 بی پی ایس بڑھا کر 13.25فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو بدھ17 جولائی 2019ء سے موثر ہوگا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق اس فیصلے میں 20 مئی 2019ء کے زری پالیسی کمیٹی کے گذشتہ اجلاس کے بعد سے شرح مبادلہ میں کمی کی بنا پر مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور یوٹیلٹی کی قیمتوں میں حالیہ ردوبدل کیا یک بارکے اثر اور مالی سال 20 کے بجٹ کے دیگر اقدامات کے نتیجے میں مختصر مدت میں ہونے والی مہنگائی کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔

اس فیصلے میں طلب کے مدھم پڑتے ہوئے اظہاریوں کی بنا پر مہنگائی کے دباؤ میں کمی کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے۔

(جاری ہے)

ان عوامل کے پیش نظر زری پالیسی کمیٹی کو توقع ہے کہ مالی سال 20 میں اوسط مہنگائی 11-12 فیصد رہے گی جو پہلے کی پیش گوئی سے زیادہ ہے۔ تاہم مالی سال 21 میں جب حالیہ اضافے کے بعض اسباب کا ایک بار کا اثر گھٹے گا تو مہنگائی میں خاصی کمی آنے کی توقع ہے۔

شرح سود کے بارے میں اس فیصلے کے حوالے سے زری پالیسی کمیٹی اس نقطہ نظر کی حامل ہے کہ ماضی کے عدم توازن کی وجہ سے شرح سود اور شرح مبادلہ میں تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ آگے چل کر زری پالیسی کمیٹی آئندہ کے معاشی حالات اور اعداد و شمار کے مطابق اقدامات کرنے کے لئے بھی تیار رہے گی۔ مہنگائی میں غیر متوقع اضافے جو اس کے منظر نامے پر منفی اثر ڈالیں مزید معتدل سختی کی طرف لے جاسکتے ہیں۔

دوسری طرف ملکی طلب میں توقع سے زیادہ نرمی اور مہنگائی میں کمی زری حالات میں نرمی کی بنیاد فراہم کرے گی۔ اس فیصلے پر پہنچنے کے لئے زری پالیسی کمیٹی نے 20 مئی 2019ء کو منعقدہ زری پالیسی کمیٹی اجلاس سے لے کر اب تک معاشی حالات ، حقیقی بیرونی اور مالیاتی شعبوں میں ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے نتیجے میں زری حالات اور مہنگائی کے منظرنامے پر غورو خوض کیا تھا۔

اعلامیہ میں مزید بتایا گیا ہے کہ گذشتہ زری پالیسی کمیٹی اجلاس کے بعد تین کلیدی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اول، حکومت پاکستان نے مالی سال 2020ء کا بجٹ منظور کیا ہے جس میں محاصل کو بڑھانے کے اقدامات کے ذریعے ٹیکس بیس کو وسیع کرتے ہوئے مالیاتی پائیداری کو معتبر انداز میں بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ توقع ہے کہ یوٹیلٹی کی قیمتوں اور بجٹ کے دیگر اقدامات سے مالی سال 20 کی پہلی ششماہی میں قیمتوں میں ایک بار خاصا اضافہ ہوگا۔

دوسری طرف حکومت نے اسٹیٹ بینک سے قرض لینے کا سلسلہ بھی ختم کرنے کا عزم کیا ہے جس سے مہنگائی کے منظرنامے میں معیاری بہتری آئے گی۔ دوم، آئی ایم ایف کی توسیعی فنڈ سہولت کے تحت پہلی قسط کی موصولی، تیل کی سعودی سہولت کے بروئے کار آنے اور کثیر طرفہ و دوطرفہ شراکت داروں کی جانب سے امداد کے دیگر وعدوں کے نتیجے میں بیرونی مالکاری کا منظر نامہ مزید مضبوط ہوا ہے۔

جاری کھاتے کا خسارہ مسلسل گھٹ رہا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیرونی دباؤ میں کمی آتی جا رہی ہے۔ دوسری جانب پچھلے زری پالیسی کمیٹی اجلاس کے بعد سے شرح مبادلہ میں کمی سے مہنگائی کا دباؤ بڑھا ہے۔ بین الاقوامی محاذ پر ابھرتی ہوئی منڈیوں کی جانب احساسات بہتر ہوئے ہیں اور امریکہ میں پالیسی ریٹ میں کٹوتی کی زیادہ توقعات ہیں۔ مالی سال 19 میں ملکی طلب کے کم ہوکر تقریباً 3 فیصد اور جی ڈی پی نمو کے 3.3 فیصد ہو جانے کا امکان ہے، اگرچہ موجودہ بلند تعدد اظہاریے (high frequency indicators)معاشی سرگرمی میں سست رفتاری کی نشاندہی کرتے ہیں تاہم آئی ایم ایف کی مدد سے چلنے والے پروگرام، شعبہ زراعت کی بحالی اور برآمدی صنعتوں کے لئے حکومتی ترغیبات کے بتدریج اثر سے پیدا ہونے والے مارکیٹ کے بہتر احساسات کے نتیجے میں سال کے دوران یہ صورت ِحال تبدیل ہونے کی توقع ہے۔

اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ مالی سال 20 میں حقیقی جی ڈی پی نمو لگ بھگ 3.5 فیصد رہے گی مگر یہ تازہ ترین دستیاب معلومات سے مشروط ہے۔ بیرونی حالات میں مسلسل بہتری دکھائی دے رہی ہے اور جولائی تا مئی مالی سال 19 میں جاری کھاتے کا خسارہ 29.3 فیصد کم ہوکر 12.7 ارب ڈالر ہوگیا ہے جبکہ یہ پچھلے سال کی اسی مدت میں 17.9 ارب ڈالر تھا۔ اس بہتری کی بنیادی وجہ درآمدی سکڑا اور کارکنوں کی ترسیلات ِزر کی بھرپور نمو ہے۔

برآمدی حجم بڑھتا رہا ہے حالانکہ اکائی قیمتوں میں کمی کے باعث برآمدی قدریں پست رہی ہیں جیسا کہ حریف برآمدی ممالک کو بھی تجربہ ہوا ہے۔ برآمدی کارکردگی میں آئندہ تبدیلیوں کا انحصار بھی ہمارے تجارتی شراکت داروں کی شرح نمو اور ملکی ساختی رکاوٹیں دور کرنے میں پیش رفت پر ہوگا۔ آئی ایم ایف کی توسیعی فنڈ سہولت کی پہلی قسط کی موصولی کے بعد 12 جولائی 2019ء کو اسٹیٹ بینک کے زر ِمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر تقریباً 8 ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔

سعودی تیل کی سہولت سمیت دیگر عالمی قرض دہندگان کی جانب سے مزید رقوم کی آمد اور جاری کھاتے کے خسارے میں مسلسل بہتری کے نتیجے میں توقع ہے کہ ذخائر مالی سال 20 کے دوران مزید بڑھیں گے۔ ماضی میں شرح مبادلہ کی زائد قدر سے نمٹنے کے لئے حقیقی موثر شرح مبادلہ میں جو ردوبدل ضروری تھا، شرح مبادلہ میں حالیہ تبدیلی کے نتیجے میں اس کا بڑا حصہ مکمل ہوگیا ہے، اگر چہ شرح مبادلہ لچکدار ہے اور مارکیٹ کے مطابق اس کا تعین ہوتا ہے تاہم اسٹیٹ بینک بازار ِمبادلہ میں انتشار سے نمٹنے کے لئے کارروائی کرنے کے لئے تیار ہے۔

مالی سال 19 میں مجموعی مالیاتی اور بنیادی خسارے دونوں بڑھے جس کا بڑا سبب محاصل کی وصولی میں نمایاں کمی ، بجٹ سے بڑھ کر سودی ادائیگیاں اور امن و امان سے متعلق اخراجات تھے۔ مالی سال 20 کے بجٹ میں ٹیکسیشن نظام میں طویل عرصے سے موجود کمزوریوں کو دور کرکے اور معاشی سرگرمیوں کی دستاویزیت بڑھا کر مالیاتی بگاڑ کے حالیہ رجحان کو معتبر انداز میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ٹیکس وصولی کے ایک بلند ہدف اور اخراجات پر سخت کنٹرول کی مدد سے بجٹ میں بنیادی خسارے میں نمایاں کمی کرنے کا منصوبہ رکھا گیا ہے۔ اس مالیاتی یکجائی سے اسٹیٹ بینک کی استحکام کی پہلے سے جاری پالیسیوں کو تقویت ملے گی۔ زری پالیسی کے نقطہ نظر سے اسٹیٹ بینک سے قرض لینے کا سلسلہ ختم کرنے کے مضبوط حکومتی عزم اور اسٹیٹ بینک کی تحویل میں واجب الادا قرضوں کی تشکیل نو کے لئے واجبات کے انتظام کے آپریشن پر عملدرآمد سے زری پالیسی کی ترسیل کو فائدہ پہنچے گا جبکہ آگے چل کر مارکیٹ کی مہنگائی کی توقعات بھی معتبر طور پر قابو میں رہیں گی۔

استحکام کے اثرات کی عکاسی کرتے ہوئے نجی شعبے کے قرضے کی نمو بھی کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔ یکم جولائی سے 28 جون مالی سال 19 کے دوران نجی شعبے کا قرضہ 11.4 فیصد بڑھا ہے جبکہ پچھلے سال کے اسی عرصے میں 14.8 فیصد بڑھا تھا۔ قرضے کی رفتار میں کمی حقیقی لحاظ سے زیادہ نمایاں تھی کیونکہ نجی شعبے کے قرضے میں زیادہ تر اضافہ خام مال کی بلند قیمتوں کی وجہ سے ہوا جس نے کاروباری اداروں کی جاری سرمائے (working capital) کی ضروریات کو بڑھا دیا۔

اس کے ہمراہ بلند میزانیہ قرضوں کے نتیجے میں بینکاری نظام کے خالص ملکی اثاثوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ مجموعی طور پر یکم جولائی سے 28 جون مالی سال 19 کے دوران زر ِوسیع (ایم ٹو12.2 ) فیصد بڑھ گیا جبکہ پچھلے سال کی اسی مدت میں 10.0 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ آگے چل کر رسد ِزر کی ہیئت ترکیبی تبدیل ہونے کی توقع ہے کیونکہ بینکاری نظام کے خالص بیرونی اثاثوں میں بہتری کی پیشگوئی ہے جبکہ خالص ملکی اثاثوں کی نمو میں نمایاں کمی آئے گی۔

اسٹیٹ بینک سے بلند حکومتی قرض، شرح مبادلہ میں کمی کے مخر اثر، ایندھن کی ملکی قیمتوں میں اضافے اور غذائی اشیا کے بڑھتے ہوئے نرخوں کے باعث مالی سال 19 میں مہنگائی نمایاں طور پر بڑھ کر 7.3 فیصد ہوگئی۔ جون 2019ء میں مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI) 8.9 فیصد تھی اور یوٹیلٹی کی قیمتوں میں ردوبدل کے ایک بار کے اثر اور مالی سال 2020ء کے بجٹ کے دیگر اقدامات کے باعث مختصر مدت میں اس کے مزید بڑھنے کی توقع ہے۔

مالی سال کی دوسری ششماہی میں یہ دباؤ کم ہونے کا امکان ہے اور زری پالیسی کمیٹی کو توقع ہے کہ مالی سال 20 مہنگائی اوسطاً 11-12 فیصد رہے گی۔ زری پالیسی کمیٹی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مہنگائی کی ان پیش گوئیوں سے ظاہر ہونے والی حقیقی شرح سود اور آج کا پالیسی ریٹ کا فیصلہ مجموعی طلب کی دوری کمزوری کے پیش نظر موزوں سطح پر ہیں۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں