کراچی میں باپ بیٹا قتل کیس میں مزید اہم انکشافات سامنے آ گئے

ملزمان گھر اور خاندان کے 100فیصد بھیدی ہے، تعداد دو یا اس سے زیادہ ہے،ملزمان نے پرسکون انداز میں واردات کرنے کے بعد شواہد مٹائے،آلہ قتل اور اپنے ہاتھ دھوئے۔ تفتیش میں انکشاف

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان پیر 14 اکتوبر 2019 11:00

کراچی میں باپ بیٹا قتل کیس میں مزید اہم انکشافات سامنے آ گئے
کراچی (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔14 اکتوبر 2019ء) کراچی میں باپ بیٹا قتل کیس میں مزید اہم انکشافات سامنے آ گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق کلفٹن میں باپ بیٹے کے قتل کے سلسلے میں پولیس نے 3 مرکزی مشتبہ افراد شارٹ لسٹ کر لیے ہیں جنہیں آج تکنیکی شواہد ملنے کی صورت میں گرفتار کیے جانے کا امکان ہے۔شواہد مثبت آنے کی صورت میں ملزمان کی فوری گرفتاری متوقع ہیں۔

پولیس ذرائع کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ داؤد انجئیرنگ یونیورسٹی کے سابق پروفیسر فصیح عثمانی اور ان کے بیٹے کے قتل میں اس خاندان کے انتہائی قرب داروں کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔ایس ایس سی ساؤتھ شیراز نذیر کے مطابق اب تک تفتیش کے دوران یہ یقینی طور کہا جاسکتا ہے کہ ملزمان گھر اور خاندان کے 100فیصد بھیدی ہے اور ان کی تعداد دو یا اس سے زیادہ ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے دوران تفتیش اہم نقطہ اٹھایا کہ ملزمان نے واردات کے بعد شواہد مٹانے کے لیے گھر کے فرش پر پونچھا لگایا۔ایس ایس پی انوسٹیگیشن طارق دھریجو نے بتایا کہ ملزم یا ملزمان نے پرسکون آندر میں واردات کرنے کے بعد شواہ مٹائے،آلہ قتل اور اپنے ہاتھ دھوئے۔جب کہ دوسری جانب ۔پولیس اس گتھی کو سلجھانے کی بھی کوشش کر رہی ہے کہ گھر کا چھوٹا بیرونی دروازہ کھلا ہونے پر ملزم گھر کے اندر تک تو آ گیا مگر اس نے گھر کے اندرونی مقفل کمرے کا دروازہ کھولا،دروازوں کو توڑنے یا زور آزمائی کرنے کی بھی کوشش نہیں کی گئی۔

کچھ عرصہ قبل مقتول فصیح عثمانی اور ان کی فیملی کی اس بنگلے کی بالائی منزل پر رہائش پذیر کرایہ داروں سے معمولی تکرار ہوئی تھی۔ تاہم معمولی سے جھگڑا دہرے قتل کی وجہ نہیں ہو سکتا۔پولیس کا مزید کہنا ہے کہ خاندان کا امریکا آنا جانا تھا جس کے لیے انہوں نے کچھ عرصہ قبل گھریلو ملازم کو کام سے ہٹا دیا تھا جس کے بعد سے کوئی چوکیدار یا گھریلو ملازم نہیں رکھی۔

پولیس کے مطابق جائے وقوعہ سے لاشیں اٹھانے کے دوران سامنے آنے والے ایک اہم نکتے کا تسلی بخش جواب نہیں مل سکا کہ مقتول پروفیسر کا بیٹا 22 سالہ کامران عثمانی قتل کے وقت برہنہ کیوں تھا۔ اس سلسلے میں مقتول کی والدہ کا کہنا ہے کہ امریکی شہریت کے حامل اور اس معاشرے میں پروان چڑھنے والے ان کے صاحبزادے کی برہنہ ہو کر سونے کی بچپن کی عادت تھی،پولیس اس نقطے سے جڑے دوسرے معاملے کی گتھی بھی سلجھانے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے۔

ملزم نے مقتول کامران عثمانی کو قتل کرنے کے لیے تیز دھار آلے کے غیر معمولی 14 سے زائد وار کیوں کیے؟۔جب کہ مقتول فصیح عثمانی پر تیز دھار آلے کے محض چارو ار کیے گئے۔ خیال رہے کہ کلفٹن میں بنگلے سے باپ بیٹے کی خون میں لت پت لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔ پولیس کے مطابق مقتولین کو چھریاں مار کر قتل کیا گیا۔ ملزمان کا تاحال سراغ نہ مل سکا، قتل ہونے والوں شناخت ڈاکٹر فصیح عثمانی اور ان کے بیٹے کامران کی حیثیت سے کی گئی تھی۔ پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر تفتیش شروع کردی تاحال ملزمان کے بارے میں کوئی سراغ نہ مل سکا۔ آئی جی سندھ نے واقعے کا نوٹس لیکر رپورٹ طلب کرلی ہے ۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں