سٹیک ہولڈرز پاکستان کے زرعی شعبے کو قرضوں کی فراہمی کے معیار اور مقدار میں بہتری لائیں، گورنر سٹیٹ بینک

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ زرعی شعبے کے قرضے ایک ٹریلین روپے سے تجاوز کر چکے ہیں، ڈاکٹر رضا باقر

منگل 19 نومبر 2019 23:57

سٹیک ہولڈرز پاکستان کے زرعی شعبے کو قرضوں کی فراہمی کے معیار اور مقدار میں بہتری لائیں، گورنر سٹیٹ بینک
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 نومبر2019ء) گورنر اسٹیٹ بینک نے اسٹیک ہولڈرز کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ پاکستان کے زرعی شعبے کو قرضوں کی فراہمی کے معیار اور مقدار میں بہتری لائیں۔ گورنر بینک دولت پاکستان ڈاکٹر رضا باقر نے زراعت کے شعبے کو قرضوں کی فراہمی میں اضافے کے لیے کوششیں کرنے پر بینکوں کی تعریف کی جو مالی سال 19 کے اختتام تک تاریخی لحاظ سے بلند ترین سطح تک پہنچ گئے ہیں۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ زرعی شعبے کے قرضے ایک ٹریلین روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔ انہوں نے یہ بات زرعی قرضہ مشاورتی کمیٹی (اے سی اے سی)کے پشاور، خیبرپختونخوا میں منعقد ہونے والے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔

(جاری ہے)

یہ اجلاس اسٹیٹ بینک کی جانب سے ملک کے پسماندہ صوبوں اور علاقوں میں زرعی قرضہ بڑھانے کی مسلسل کوششوں کا حصہ ہے۔

تاہم ڈاکٹر رضاباقر نے بینکوں پر زور دیا کہ وہ زرعی قرضوں کے متعلق اسٹیٹ بینک کی تزویراتی تبدیلی اور اہم پالیسی اقدامات کی روشنی میں دیے گئے اہداف کے معیاری پہلووں کے حصول کے لیے کوششوں میں اضافہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ بیشتر بینکوں نے اپنے مقررہ اہداف حاصل کر لیے لیکن زیڈ ٹی بی ایل، پی سی بی ایل ، کچھ ملکی نجی اور اسلامی بینکوں نے ہدف سے کم قرضے تقسیم کیے۔

تمام صوبوں اور علاقوں میں زرعی قرضوں کی صوبہ وار تقسیم میں دوہندسی نمو ہوئی تاہم بینکوں کو پسماندہ علاقوں میں اپنے مقررہ اہداف حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑی۔ انہوں نے زرعی قرضے دینے والے بینکوں اور اداروں پر زور دیا کہ وہ پسماندہ صوبوں اور علاقوں میں زرعی قرضے کے اہداف کا حصول یقینی بنانے کے لیے اپنی ذمہ داریوں اور کوششوں میں اضافہ کریں۔

گورنر نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اسٹیٹ بینک زرعی شعبے میں مالی شمولیت کو مزید فروغ دینے کے لیے تین اہم پالیسی اقدامات پر غور کر رہا ہے۔ اول، زرعی قرضوں کی فراہمی، جغرافیائی تقسیم، واجب الادا رقم، قرض گیروں کی تعداد اور زرعی قرضے کے انفراسٹرکچر پر مشتمل ماہانہ بنیادوں پر بینک وار کارکردگی کے اعدادوشمارظاہر کر کے اس کی شفافیت میں اضافہ کرنا ہے۔

دوم، زرعی قرضوں کے اہم اظہاریے اور اہداف پر مبنی بینکوں کی درجہ بندی کے لیے ایک جامع اسکورنگ ماڈل متعارف کرانا۔ سوم، بینکوں کی کارکردگی کے اسکور کی بنیاد پر ترغیبات اور جرمانے متعارف کرانا۔ ڈاکٹر باقر نے زور دیا کہ بینکوں کے لیے قرضے دینے کے وسیع مواقع موجود ہیں جس سے مالی شمولیت اور بینکوں کی نفع یابی دونوں مقاصد کو تقویت ملے گی۔

کلیدی خطاب کے بعد ایک پریزنٹیشن دی گئی جس میں زرعی قرضوں پر مالی سال 19 کے دوران بینکوں کی اپنے اہداف کے مقابلے میں کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ۔ بتایا گیا کہ مالی سال 20 کے لیے زرعی قرضے کا ہدف مختص کرتے ہوئے بینکوں کو مجموعی طور پر 1350 ارب روپے قرضے جاری کرنے کا ہدف تفویض کیا گیا ہے جو زرعی قرضے کی ضروریات کے مجموعی تخمینے 1518 ارب روپے کا 89 فیصد بنتا ہے۔

صوبوں کی زرعی قرضے کی ضروریات، قرضے جاری کرنے کی بینکوں کی مجموعی استعداد اور ان کے کاروبار کے توسیعی منصوبوں کو پیشِ نظر رکھ کر صوبوں اور شعبوں کے لحاظ سے ہدف مقرر کیے گئے۔ یہ بات اجاگر کی گئی کہ اسلامی بینکوں اور کمرشل بینکوں کی اسلامی برانچوں کو گذشتہ سال کی طرح 110 ارب روپے قرضہ جاری کرنے کا ہدف دیا گیا ہے تاکہ وہ اسلامی زرعی قرضے کے امکانات کو حقیقت کا روپ دے سکیں۔

نیز، قرضہ لینے والے کاشت کاروں کی تعداد کا ہدف 650,000 نئے قرض گیروں کے اضافے سے 4.67 ملین تک بڑھا دیا گیا ہے۔کمیٹی نے زرعی قرضے میں نئی جہتوں پر غور کرتے ہوئے ٹیکنالوجی خصوصا زرعی قرضے کے پراسیسز کی ڈجیٹلائزیشن پر بھی توجہ مرکوز کی جس میں لینڈ ریکارڈ انفارمیشن سسٹمز، الیکٹرانک ویئر ہاوس ریسیٹ فنانسنگ سسٹم، اور کسان ڈجیٹل پورٹل جیسے مثالی اقدامات اپنانا شامل ہے، جو مالی شمولیت کی قومی حکمتِ عملی 2023 کے تحت اہم ترجیحات ہیں۔

اس کے بعد ان موضوعات پر، پریزینٹیشنز دی گئیں گلگت بلتستان میں ڈیری ویلیو چین، دی بینک آف خیبر (ii) زیتون کی کاشت اور اس کی ویلیو چین کی ترقی، پاکستان زرعی تحقیق کونسل (iii) ایک جدت پسند کاشت کار کی جانب سے بنجر زمین دوبارہ زرخیز بنانے کا اختراعی منصوبہ (iv) ڈجیٹائزیشن کے ذریعے دیہی قرضوں کی فراہمی، ایچ بی ایل (v) فراہمی کے متبادل ذرائع سے زرعی قرضے دینا، خوشحالی بینک اور (vi) بینکوں کے ذریعے سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام کے منصوبوں کے لیے مشترکہ فنانسنگ کے مواقع، وزارت قومی غذائی تحفظ۔

اجلاس کے اختتام پر ڈاکٹر رضا باقر نے تمام اسٹیک ہولڈرز کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ زرعی شعبے کو باضابطہ قرضہ بڑھانے کے لیے اشتراک جاری رکھیں۔ انہوں نے بینکوں پر زور دیا کہ سال کے تفویض کردہ علاقائی اہداف کو پورا کرنے کے لیے اپنی کوششیں بڑھائیں۔اختتام سے قبل گورنر اسٹیٹ بینک نے شرکا کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ بینک اشتراک اور تجربات کے تبادلے سے سرمایہ کاری کے نئے مواقع تلاش کر کے مالی سال 20 کا مجموعی سالانہ ہدف حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ خصوصا پسماندہ علاقوں میں اپنے علاقائی اہداف حاصل کریں گے۔

اجلاس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سینئر حکام، بینکوں کے صدور/ سی ای اوز، تمام صوبائی ایوان ہائے زراعت کے ارکان، ترقی پسند کاشت کاروں، خیبر پختونخوا کی کاشت کار برادری کے نمائندوں اور اسٹیٹ بینک کے حکام نے شرکت کی۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں