ناخواندہ بچوں کو تعلیم یافتہ بنا کر ہی پاکستان میں مدینہ طرز کی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے، گورنر سندھ

حکومت غیر مراعات یافتہ گھرانوں کے بچوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے ہونے والی فلاحی کوششوں کا بھرپور ساتھ دے گی،تفریحی میلے کی افتتاحی تقریب سے خطاب

جمعرات 23 جنوری 2020 17:49

ناخواندہ بچوں کو تعلیم یافتہ بنا کر ہی پاکستان میں مدینہ طرز کی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے، گورنر سندھ
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جنوری2020ء) گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا ہے کہ سندھ میں موجود 4.2 ملین ناخواندہ بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی مہم کا موجودہ حکومت بھرپور ساتھ دے گی کیونکہ ایسے ہی اقدامات سے ملک میں مدینہ جیسی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔یہ بات انہوں نے جمعرات کے روز کراچی کے ایک معروف پارک میں یتیم بچوں کے لئے دن بھر طویل تفریحی میلے کے افتتاح کے موقع پر بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب میں کہی۔

تفریحی میلے کا انعقاد گرین کریسنٹ نے سندھ بھر میں موجود اپنے 150 سے زائد فلاحی اسکولوں میں موجود یتیم طالبعلموں کے لیے کیا تھا۔گورنر سندھ نے اس موقع پر کہا کہ موجودہ حکومت صوبے کے پسماندہ اور غیر مراعات یافتہ گھرانوں کے بچوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے ہونے والی فلاحی کوششوں کا بھرپور ساتھ دے گی کیونکہ ایسے ہی اقدامات سے موجودہ حکومت کا ملک کے ہر حصے کو یکساں ترقی دلانے کا ویژن حاصل کیا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ حکومت رفاعی اداروں کی جانب سے پسماندہ طبقات کی بچیوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی بھی بھرپور حمایت کرے گی۔انہوں نے کہا کہ تعلیم کے فروغ اور ہر بچے کو خواندہ بنائے بغیر ملک میں مدینہ جیسی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکتا جس کے لیے وزیر اعظم عمران خان اور موجودہ حکومت بھر پور کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی عظیم فلاحی مقصد کے حصول کے لیئے بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہوں اور غریب طبقات کے لیے لنگر خانوں کا قیام پورے ملک میں لایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ غریب اور یتیم بچوں کی فلاح و بہبود، تعلیم، اور تفریح کے لیے کی جانے والی کوششیں لائق تحسین ہیں اور ایسے اقدامات اٹھانے والے فلاحی اداروں کی بھرپور اعانت کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ مستند فلاحی اور رفاعی تنظیمیں تعلیم، صحت، اور بنیادی انسانی سہولتوں سے متعلق مختلف شعبہ جات میں امدادی سرگرمیاں منعقد کرکے ریاست اور حکومت کا بھرپور ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ گورنر نے کہا کہ یہ تمام فلاحی سرگرمیاں ظاہر کرتی ہیں کہ حکومت انسانی خدمت سے متعلق مختلف شعبہ جات میں اپنی بنیادی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہے اور اسی وجہ سے ایسے مستند فلاحی تنظیموں کے ساتھ کی حکومت کو ہر وقت ضرورت رہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی کہ تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والے جی سی ٹی جیسے مستند فلاحی اداروں کی بھرپور مدد کرے تاکہ وہ اپنی بیلوث خدمات کا دائرہ صوبے بھر میں وسیع کر سکے۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے جی سی ٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر زاہد سعید نے اپنے فلاحی ادارے سے منسلک عطیات دینے والے افراد کا بھرپور شکریہ ادا کیا اور کہا کہ کہ ایسے ہی بے لوث تعاون کی بدولت ان کا ادارہ اپنے رفاعی سکولوں کے نیٹ ورک میں موجود 1600 سے زائد بچوں کی بھرپور کفالت اور بحالی کے اقدامات ہرسال اٹھا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میلے کا انعقاد بھی ایسے ہی اقدامات کی ایک کڑی ہے۔انھوں نے موجودہ حکومت پر زور دیا کہ ملک میں ناخواندہ بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان جیسے دوسرے مسائل سے نمٹنے کے لیے تعلیمی امرجنسی کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد تعلیم کا شعبہ وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوگیا ہے مگر وفاقی حکومت ملک میں موجود تعلیمی مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری سے خود کو عہدہ برا نہیں کرسکتی۔

انہوں نے کہا کہ صرف صوبہ سندھ میں ناخواندہ بچوں کی تعداد 4.2 ملین ہے اور اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے تعلیمی نظام کی بہتری اور دستیاب وسائل کا شفاف استعمال ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ جی سی ٹی نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز 25 سال پہلے کراچی کے ضلع غربی کے دور دراز کے ایک علاقے میں اپنا پہلا سکول قائم کرکے کیا۔ اس سکول میں 50 طالب علم اور ایک استاد تھا۔

آج جی سی ٹی کے نیٹ ورک میں طالب علموں کی تعداد 29 ہزار ہے جن کو چودہ سو قابل اساتذہ تعلیم دے رہے ہیں۔ جی سی ٹی ان علاقوں میں اسکولوں کا قیام عمل میں لے کر آء جہاں پر پہلے کوئی پرائیویٹ یا سرکاری سکول موجود نہ تھا۔انہوں نے کہا کہ جی سی ٹی اگلے پانچ سالوں میں اپنے سکولوں میں طالب علموں کی تعداد ایک لاکھ لے جانا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی سی ٹی کو حاصل ہونے والے عطیات کو کو غیر مراعات یافتہ گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کی معیاری تعلیم پر براہ راست خرچ کیا جاتا ہے اور ان عطیات سے سکولوں کی عمارتیں نہیں تعمیر کی جاتیں کیونکہ اسکولوں کو کرائے پر حاصل شدہ عمارتوں میں قائم کیا جاتا ہے ۔

انہوں نے ارادہ ظاہر کیا کہ سندھ میں تعلیمی نظام کے حوالے سے کام کرنے والے غیر سرکاری تنظیموں کی مشترکہ کنسوشیم کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ صوبے کی تعلیمی پسماندگی کو مشترکہ کاوشوں سے دور کیا جاسکے۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں