سپریم کورٹ نے نالوں کی صفائی کا کام این ڈی ایم اے سے لے کر سندھ حکومت کو دینے کی استدعا مسترد کر دی

سندھ حکومت نالوں کی صفائی کر رہی تھی تو این ڈی ایم اے کیوں آئی ہوسکتا ہے 5 سے 6 نالے حکومت سندھ نے صاف کیے ہوں آپ نے کہا 514 نالے ہیں، ناجانے کراچی میں اور کتنے نالے ہوں، چیف جسٹس نالوں کی صفائی کا کام ورلڈ بینک کے پیسوں سے ہو رہا ہے، وزیراعلی سندھ خود نالوں کی صفائی کے کام کی نگرانی کر رہے ہیں، ایڈووکیٹ جنرل سندھ این ڈی ایم اے کو نالے صاف کرنے کا کہا ہے، وہ جاپان سے نہیں آئے ہیں، سندھ حکومت لوگوں کی مشکلات کم کرے،جسٹس اعجازالاحسن

جمعرات 13 اگست 2020 17:38

سپریم کورٹ نے نالوں کی صفائی کا کام این ڈی ایم اے سے لے کر سندھ حکومت کو دینے کی استدعا مسترد کر دی
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 اگست2020ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی میں نالوں کی صفائی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(این ڈی ایم ای)کے بجائے حکومت سندھ کو دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ این ڈی ایم اے جاپان نہیں پاکستان کا ہی ادارہ ہے۔جمعرات کوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے شہر میں نالوں کی صفائی سے متعلق کیس کی سماعت کی، جہاں صوبائی اور مقامی حکومت کے نمائندوں، ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور دیگر حکام پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے صوبائی حکومت کی جانب سی3 اگست تک نالوں کی صفائی سے متعلق رپورٹ پیش کی، ساتھ ہی بتایا کہ شہر میں 514 چھوٹے نالے ہیں جبکہ شہر کے بڑے نالوں میں سے 3 نالے این ڈی ایم اے کے پاس ہیں۔

(جاری ہے)

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ گجر، مواچھ گوٹھ اور سی بی ایم نالا این ڈی ایم اے کے پاس ہے، گجر نالے پر 50 اور دیگر پر 20 سے 25 فیصد کام کردیا تھا، اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ نالوں کی صفائی اگر ہورہی ہے تو پانی کیسے بھر گیا، جس پر انہیں جواب دیا گیا کہ کچرہ بھرا ہوا تھا تو پانی کھڑا ہونا تھا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے ہی کام ہوا تھا جیسے اور جگہوں پر ہوتا ہی جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ نالوں کی صفائی کا کام ورلڈ بینک کے پیسوں سے ہو رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ وزیراعلی سندھ خود نالوں کی صفائی کے کام کی نگرانی کر رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ حکومت سندھ نالوں کی صفائی کر رہی تھی تو این ڈی ایم اے کیوں آئی، اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ پتا نہیں کیوں آئی۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ ہمیں نالوں کی صفائی کے لیے 30 اگست کا وقت دیا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہاں نالوں کی صفائی کی تصاویر پیش کر کے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں، 2 نالوں کی صفائی کی تصاویر دکھا کر کہتے ہیں کراچی صاف کردیا۔دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل نے پوچھا کہ گزشتہ روز کے حکم نامے کی وضاحت کردیں، این ڈی ایم اے سے نالے صاف کرانے کا مقصد حکومت سندھ تو مکمل آئوٹ ہوگئی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تو اب آپ کو فکر ہورہی ہے، کل تو کسی نے نہیں کہا کراچی میں بڑا کام ہورہا ہے، نالے صاف کردیئے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ 5 سے 6 نالے حکومت سندھ نے صاف کیے ہوں لیکن آپ نے کہا کہ 514 نالے ہیں، ناجانے کراچی میں اور کتنے نالے ہوں۔ساتھ ہی جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جو تصویر آپ دکھا رہے ہیں، اتنا نیلا پانی تو شاید سمندر میں بھی نہ ہو، این ڈی ایم اے نالے صاف کردے گا تو آپ کو کیا مسئلہ ہی این ڈی ایم اے کو نالے صاف کرنے کا کہا ہے، وہ جاپان سے نہیں آئے ہیں بلکہ پاکستان ہی ادارہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں ہم این ڈی ایم اے کو کام کرنے سے روک دیں، ، سندھ حکومت لوگوں کی مشکلات کم کرے۔جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ مشینری ہماری، لوگ ہمارے، این ڈی ایم اے کا ایک سپروائزر کھڑا ہوگا۔اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حکومت سندھ لوگوں کی مشکلات کم کرے، اگرآپ کو عوام کے لیے کچھ کرنا ہے تو ان کو این ڈی ایم اے کی جانب سے نالے صاف کرنے سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔بعد ازاں عدالت نے نالوں کی صفائی این ڈی ایم اے کے بجائے حکومت سندھ کو دینے کی ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی زبانی استدعا مسترد کردی۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں