اہم قومی معاملات پر اتفاق رائے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خودوزیر اعظم ہیں،بلاول بھٹوزرداری

عمران خان بحثیت وزیر اعظم اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں،مزید کام نہیں کر سکتے تو مستعفی ہوجائیں شیخ رشید کا غیر ذمہ دارانہ بیانیہ معاملات کو متنازعہ بنارہاہے،یہی روش برقرار رہی تو آئندہ قومی سلامتی کے کسی اجلاس میں شریک نہیں ہونگا قومی سلامتی کے معاملے پر پوری اپوزیشن متحد اور اپنے سیاسی مفاد کو بھی قربان کرنے کو تیار ہے،مودی کو مس کال دینے والا ملک کیسے چلائیگا گلگت بلتستان کے عوام اپنے مستقبل کے فیصلے خود کرینگے اور وہاں کسی ایسی قانون سازی کا حصہ نہیں بنیں گے جسمیں وہاں کے عوام شامل نہ ہوں،پریس کانفرنس

جمعرات 24 ستمبر 2020 08:41

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 ستمبر2020ء) پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اہم قومی معاملات پر اتفاق رائے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خودوزیر اعظم عمران خان ہیں،اگر وزیر اعظم اپنا کام ٹھیک سے نہیں کرسکتے تو استعفیٰ دیں، آرمی چیف سے ملاقات میں قومی سلامتی کے علاو ہ کوئی دوسری بات نہیں ہوئی ،شیخ رشید کا غیر ذمہ دارانہ بیانیہ معاملات کو متنازعہ بنارہاہے، یہی روش برقرار رہی تو آئندہ قومی سلامتی کے کسی اجلاس میں شریک نہیں ہونگا،قومی سلامتی کے معاملے پر پوری اپوزیشن متحد اور اپنے سیاسی مفاد کو بھی قربان کرنے کو تیار ہے تاہم مودی کو مس کال دینے اور فون کال کرنے والا ملک کیسے چلائے گا۔

گلگت بلتستان کے عوام اپنے مستقبل کے فیصلے خود کرینگے اور وہاں کسی ایسی قانون سازی کا حصہ نہیں بنیں گے جسمیں وہاں کے عوام شامل نہ ہوں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کی شام میڈیا سیل بلاول ہائوس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں پی پی پی کی منعقدہ اے پی سی میں حکومت اور اسکے سہولت کاروں کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ بن چکی ہے میری آج کی پریس کانفرنس کے تین نکات ہیں جن میں حکومت کے خلاف تحریک، سیلاب متاثرین اور آخری میں گلگت بلتستان کے حوالے سے ہونے والی نیشنل سیکورٹی بریفنگ پر بات کروں گا۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا اسلام آباد اے پی سی تاریخی اے پی سی تھی جب سے حکومت آئی ہے پہلی بارایک فورم پرمیاں نوازشریف اور صدر آصف علی زرداری نے ایک ساتھ شرکت کی، اس اے پی سی میں میاں صاحب نے بھرپورشرکت کی اور اس اے پی سی میں میاں صاحب کو بھرپور اظہار رائے کا موقعہ ملا۔نوگھنٹے کی طویل مشاورت سے نہ صرف اس حکومت کے خلاف ایکشن پلان تیارکیا گیا بلکہ اس پرعمل کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی۔

ہمارامطالبہ یہ ہی کہ ملک میں سب کے لیے یکساں قانون ہونا چاہیے۔ ہم سب کے لئے جمہوریت چاہتے ہیں ہرعام شہری کے لیے جمہوریت چاہتے ہیں۔سب کی برابری چاہتے ہیں۔ جہاں سب کے لیے مساوی مواقع میسر ہوں چاہے وہ انتخابات ہوں، پارلیمان ہو، کورٹس ہوں، الیکشن کمیشن ہو یا پھر میڈیا سب کو مساوی موقع دینا چاہیے اور جمہوریت پر سینسر شپ کا بھی خاتمہ چاہتے ہیں۔

پی پی پی چئیرمین کا ملک میں بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہ کاری پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میرے صوبے میں وبائی صورتحال ہے یہ نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی خبر بنی چایئے تھی۔ ہمارے صوبے میں شدید مشکلات ہیں۔ سوات، خیبر پختون خوا، گلگت بلتستان، پورے پاکستان میں سیلاب متاثرین ہیں۔ پورے پاکستان میں بارش اورسیلاب سے فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔

ہمارابہت نقصان ہواہے، پہلیہی کرونا صورتحال سے ہمیں بہت نقصان پہنچا، اس سے قبل ٹڈی دل نے بھی ہماری زراعت کو متاثرکیااوپرسے بارشوں سے مزید تباہی آئی۔ میں نے سندھ میں مرچ، کپاس، اور ٹماٹر کی فصل تباہ ہوتے دیکھی ہے۔ جس سے کسانوں کو بہت نقصان ہوا۔ میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ کسانوں کو ریلیف دیا جائے۔ اور جس طرح دوہزار گیارہ میں ہم نے متاثرین کو پاکستان کارڈ دیا تھا، آج بھی وفاقی حکومت کو چاہیے کہ پاکستان کارڈ کا آجرا کرے۔

ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ زراعت کوسپورٹ کرے۔وفاق کوآگے آنا پڑیگا. بلاول بھٹو زرداری کا قومی سلامتی بریفنگ کے اجلاس پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ قومی سلامتی کے نام پرجوملاقاتیں ہوتی ہیں ان کوظاہرنہیں کیا جاتا کچھ غیرذمہ دارلوگ جن کا نہ قومی سلامتی سے نہ کشمیرسے نہ گلگت بلتستان سے تعلق ہے ٹی وی چینلزپر آکر اس موضوع پربات کرتے ہیں۔

قومی سلامتی اورخارجہ امورکے معاملے پربلائی گئی میٹنگ کے متعلق غیرذمہ داری سے بات کی گئی۔ جوبھی ہے جس کابھی ترجمان ہے ان کونوٹس لینا چاہیئے ورنہ یہ قومی سلامتی کے حساس موضوعات متنازعہ ہوجائیں گے۔ وزیراعظم عمران خان آج تک پلواما ہویا کوئی دوسرا قومی سلامتی کا ایشوہمیشہ ناکام رہے ہیں۔ وہ میٹنگزمیں موجود نہیں ہوتے۔قومی سلامتی امورپر سب کوایک ہوناپڑتا ہے ۔

اس باربھی وزیراعظم قومی سلامتی بریفنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ان کے بغیرمیٹنگ نہیں ہونی چاہیئے تھی۔ مگر وزیر اعظم کا قومی سلامتی بریفنگز میں موجود نہ ہونا انکی مکمل ناکامی ہے۔پیپلزپارٹی نے 2018کے منشورمیں گلگلت بلتستان میں اصلاحات کی بات کی تھی۔ میں جگہ جگہ گیا اور اپنے منشور کو لہراتا تھا۔ اس منشور کو صفہ 56 کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔

اور ہمارا منشور وہاں کی اصلاحات کے حوالے سے تھا۔میں اسی منشور اور اصلاحات پرالیکشن لڑوں گا۔ ایک حاشیہ یا نقطہ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ باقی جماعتوں سے بھی کہتا ہوں کہ اپنے منشور پر انتخاب لڑیں یا پھر اپنے منشور کو تبدیل کر کے گلگت بلتستان کے انتخاب میں حصہ لیں۔ نیشنل سیکیورٹی بریفنگ میں بھی ہماری پوزیشن یہی تھی کہ وزیراعظم لیڈ کریں نہیں تواستعیفی دیں۔

پیپلزپارٹی نے میٹنگ میں گلگت بلتستان کی عوام کے حق کی بات کی۔میٹنگ میں بھی کہا کہ وہاں کیلوگ اپنا فیصلہ کریں۔اس میٹنگ میں گلگت بلتستان کاایک بھی نمائندہ نہیں تھا۔ چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بریفنگ سے یہ تاثر ملا کہ آرمی چیف کی بھی خواہش ہے کہ گلگت بلتستان میں الیکشن منصفانہ اور شفاف ہوں اور پاکستان میں بھی مستقبل کے انتخابات شفاف ہوں۔

انکا کہنا تھا کہ میں خود پیپلزپارٹی کی الیکشن مہم چلائوں گا، یہ ابتدا ہوگی، آج نہیں توکل جنرل الیکشن بھی ہونگے۔پی پی پی چئیرمین کا کہنا تھا کہ نیشنل سیکورٹی پر جو اجلاس میں کہا اس پر زیادہ بات نہیں کروں گا آرمی چیف نے کوئی ترمیم کرنے کا نہیں کہا۔آرمی چیف نے خطے کی صورتحال اور نیشنل سیکورٹی پر بات کی۔بہتر ہوتا وزیر اعظم اس اجلاس کی صدارت کرتے۔

یہ ہی ہمارے موقف بھی ہے کہ ملک کا وزیر اعظم ان مسائل پر پوری قوم کو ساتھ لے کر چلے جس میں عمران خان مکمل ناکام ہیں۔ یہ نہ پہلی میٹنگ تھی قومی سلامتی کے حوالے سے نہ آخری، مستقبل میں بھی ملکی سلامتی کے حساس معاملات پر بات چیت جاری رہے گی مگر یہ ممکن نہیں ہوگا اگر اس طرح حساس معاملات کو کوئی بھی شخص باہر آکر میڈیا کی زینت بنا دے۔چیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا مزید کہنا تھا کہ جہاں تک قانون سازی کی بات ہے اس پر کلیر کیا ہے کہ جو بھی فیصلہ کرنا ہے وہ گلگت بلتستان کے عوام نے کرنا ہییہی پیپلز پارٹی کا منشور ہے،اس شخص کو اندازہ نہیں جو اس اجلاس کے اشوز کو متنازع کررہا ہے۔

شیخ رشید کو اس اجلاس کی باتوں کو متنازع بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یہ غیر ذمہ دارنہ رویہ ہے میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ گلگت بلتستان کے عوام اپنے اختیار کا حق چاہتے ہیں ۔اور ساتھ میں یہ بھی کہتا ہوں اگر نیشنل سیکورٹی کے اشوز کو متنازع کیا گیا تو میں یا میری پارٹی کسی اجلاس میں شریک نہیں ہوگی۔ انکا مزید کہنا تھا کہ نیب کے معاملے پر کوئی بات نہیں ہوئی صاف اور شفاف الیکشن پر بات کی گئی۔

مستقبل میں ہمارے الیکشن پر تحفظات اور اعتراضات دور کرنے کی امید ہے۔گلگت بلتستان الیکشن اس سلسلے میں پہلی کڑی ہے اگر اعتراض دور کئے جاتے ہیں تو یہ تو مستقبل میں بہتری کی طرف پہلی کڑی ہوگی۔ ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ گوعمران گو ہم شروع دن سے کہہ رہے ہیں ۔جو شخص کشمیر اشو پر اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لے سکتا وہ ملک کو کیسے لیکر چل سکتا ہے۔

ہم نے اپنے دور میں اسلام آباد کے نجی ہوٹل میں حملے پر اپوزیشن کو کابینہ میں دعوت دیکر بلایا تھا۔اس سارے عمل میں ایک شخص رکاوٹ ہے اور وہ ہے عمران خان ۔۔ انکا ایک اور سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ ن لیگ پر مریم کا ٹویٹ نہیں دیکھا اے پی سی میں کی لوگ ن لیگ سے موجود تھے اور پارٹی کو لیڈ کررہے تھے۔پاکستان کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے معاملات آئے گے تو اس میں ہمیں ایک بیانیہ بناکر دنیا میں جانا ہوگا۔

عمران خان کے اقتدار میں رہتے ہوئے یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔پیپلز پارٹی کے موقف بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ رہنما پی پی پی کا کہنا تھا کہ ملکی مفاد کوکبھی بھی قربان نہیں کیا جاسکتا۔اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ اپوزیشن قومی سلامتی پر تعاون کیلئے تیار رہی ہے لیکن وزیر اعظم میں اتنی سیاسی بلوغت نہیں ہی. اس موقع پر پی پی پی چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے گلگت بلتستان الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواران کا اعلان بھی کیا۔ چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ پریس کانفرنس میں وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ، ناصرشاہ، نثار کھوڑو اور سعید غنی بھی موجود تھے۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں