ملک میں جمہوری مارشل لا ہے۔ بلدیاتی حکومتوں پر وفاقی اور صوبائی ایوانوں میں براجمان غاصبوں نے طاقت کے زور پر قبضہ کر رکھا ہے، مصطفی کمال

وفاق صوبے کو این ایف سی کی مد میں جو پیسہ دیتا ہے وہ وزیر اعلی اپنے پاس رکھ کر بیٹھ جاتا ہے جیسے عوام کے نہیں اس کے ذاتی پیسے ہوں اور کوئی اسکو پوچھنے والا نہیں ہر سال این ایف سی کے ہزاروں ارب روپے ملنے کے باوجود کراچی سمیت پورا سندھ کھنڈرات کا منظر کیوں پیش کررہا ہے، میڈیا سے گفتگو

ہفتہ 5 دسمبر 2020 22:08

ملک میں جمہوری مارشل لا ہے۔ بلدیاتی حکومتوں پر وفاقی اور صوبائی ایوانوں میں براجمان غاصبوں نے طاقت کے زور پر قبضہ کر رکھا ہے، مصطفی کمال
!کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 دسمبر2020ء) پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال نے کہا ہے کہ اس ملک میں جمہوری مارشل لا ہے۔ بلدیاتی حکومتوں پر وفاقی اور صوبائی ایوانوں میں براجمان غاصبوں نے طاقت کے زور پر قبضہ کر رکھا ہے، ایسی صورتحال میں اٹھارویں ترمیم کا کوئی فائدہ نہیں جس سے صوبوں کو نقصان ہورہا ہے، وفاق صوبے کو این ایف سی کی مد میں جو پیسہ دیتا ہے وہ وزیر اعلی اپنے پاس رکھ کر بیٹھ جاتا ہے جیسے عوام کے نہیں اس کے ذاتی پیسے ہوں اور کوئی اسکو پوچھنے والا نہیں کہ ہر سال این ایف سی کے ہزاروں ارب روپے ملنے کے باوجود کراچی سمیت پورا سندھ کھنڈرات کا منظر کیوں پیش کررہا ہے۔

سندھ میں 8 ہزار 342 ارب روپے خرچ کردیے گئے اور سندھ کا دارالخلافہ آج رہنے کے لائق بدترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

حکمرانوں اور اپوزیشن کا مسئلہ یہ ہے کہ قومی اور صوبائی حکومتوں کے انتخابات میں دیر ہو جائے تو آئین اور پاکستان خطرے میں پڑجاتا ہے، اب عوام کا مسئلہ ہے تو آئین پاکستان کے آرٹیکل 140 اے کی مسلسل خلاف ورزی کی جارہی ہے لیکن کسی کو دکھائی نہیں دے رہا۔

ہمارے نام نہاد جمہوری نمائندے چاہے حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں وہ وسائل اور اختیارات اپنی ذات سے نیچے دینا نہیں چاہتے، سندھ کے وزیر اعلی نے تو عدالت میں لکھ کر دیدیا کہ صحیح مردم شماری نہ ہو تو بلدیاتی حلقہ بندی نہیں ہوگی لیکن قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کیلئے نیا قانون بنایا اور انہیں حلقوں میں انتخابات بھی کروا دیئے گئے۔

بہترین بلدیاتی نظام کا اعلان کرنے والے وزیراعظم عمران خان عملی اقدام اٹھا کر اپنے ارادے کی سچائی ثابت کرتے ہوئے پہلے پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں انتخابات کرائیں اور پھر سندھ کے وزیرِ اعلی کو اسی نظام کے تحت سندھ میں انتخابات کرانے کے لیے بحیثیت وزیراعظم قائل کریں۔ پنجاب بھر کے 56ہزار کونسلرز کو معیاد نا ختم ہونے کے باوجود یک جنبش قلم سے گھر بھیج دیا گیا جن میں اکثریت مسلم لیگ(ن) کے کونسلرز کی تھی لیکن ہر بار "مجھے کیوں نکالا" پوچھنے والے مسلم لیگ(ن) کے قائد سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سمیت مسلم لیگ(ن) کے کسی ایک رہنما نے ایک بار بھی حکومت سے نہیں پوچھا کہ "انہیں کیوں نکالا"۔

پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے بھی عوامی مسائل اور انکو حل کرنے والی بلدیاتی حکومتوں پر کوئی بات نہیں ہو رہی یہی وجہ ہے عوام اب حکمرانوں اور اپوزیشن دونوں سے دل برداشتہ ہوگئے ہیں۔ عمران خان نے 22 سال موروثی سیاست کے خاتمے کے لیے جدوجہد کی اگر واقعی اس کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ملک میں نئے لیڈرز پیدا کرنے کی نرسری پر لگے تالے توڑیں اور ملک کو موثر بلدیاتی نظام دیں۔

ملک میں نئے لیڈر پیدا کرنا ضروری ہے اس کے لئے نیچے سے باصلاحیت لوگوں کو اوپر لانا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیب کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سیکریٹری جنرل ایڈوکیٹ حسان صابر، وائس چیئرمین ایڈوکیٹ سید حفیظ الدین اور دیگر اراکین لائرز فورم بھی انکے ہمراہ موجود تھے۔ سید مصطفی کمال نے مزید کہا کہ پاکستان میں آج جتنی مایوسی ہے پہلے کبھی نہیں تھی، بلدیاتی حکومتوں کے بغیر عوامی مسائل کا حل ممکن نہیں۔

میئرز کے براہِ راست انتخاب سے ملک میں انقلاب آجائیگا۔ وزیراعظم کی ہر بات کی حمایت اور غیر مشروط تائید کرتا ہوں لیکن یاد دلانا چاہتا ہوں کہ یہ وہی وزیراعظم ہیں جنکی بات کی اہمیت یہ ہے کہ قوم کو یقین ہی نہیں آتا کہ اعلان شدہ بات پر عمل بھی ہوگا، امید کرتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کا اعلان دیگر اعلانات کی طرح اعلان کی حد تک نہیں رہے گا۔

مصطفی کمال نے مزید کہا کہ عدالتیں لوگوں کو بلاکر سرزنش کر رہی ہیں، عدالتی تبصرے الیکٹرونک میڈیا اور اخبارات میں شائع ہوتے ہیں، عوامی مسائل پر ججز کی نظر ہے۔ میں عدلیہ کو سلام کرتا ہوں کہ آپ کی مسائل کے حل پر ضرور نظر ہے لیکن کوئی احکامات صادر نہیں کیے جا رہے جس سے ایک عام آدمی بہت مایوس ہے۔ عمران خان انتخابی اصلاحات کے حوالے سے اپوزیشن کو بٹھائیں اور اپنی کہی ہوئی باتوں پر عملدرآمد کرائیں تاکہ نا کوئی انتخابات چوری کرنے کا الزام لگا سکے اور نا کسی حکومت کو سیلکیٹڈ کہا جائے۔

حکومت سمجھ لے کہ وزیراعظم کو عوامی مسائل کے حل کیلئے اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنی ہوگی کیونکہ اسکے علاہ کوئی اور چارا نہیں ہے۔ اسٹیل مل سے ساڑھے چار ہزار ملازمین کو نکال دیا گیا جبکہ اسٹیل مل کے نکالے گئے ملازمین اس وفاقی وزیر کو بھی ڈھونڈ رہے ہیں جنہوں نے اسٹیل ملز کے ملازمین کیساتھ زیادتی ہونے پر مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہوا تھا۔

یہی اسٹیل مل 2007 تک منافع میں چل رہی تھی، ادارے بند کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ پی آئی اے کا ہیڈ آفس کراچی سے اسلام آباد منتقل کر رہے ہیں۔ یہ شہر ملک کی معاشی شہہ رگ ہے اس سے دشمنی اور یہاں کے شہریوں کے ساتھ تیسرے درجے کے شہری کا سلوک بند کیا جائے۔ مصطفی کمال نے مزید کہا کہ چترال میں ایک پل کے ٹوٹنے سے ایک لاکھ افراد کا دیگر علاقوں سے زمینی راستہ منقطع ہو گیا ہے۔ پاکستان آرمی اور حکومت سے درخواست ہے کہ اس کو جلد از جلد تعمیر کیا جائے۔ برف باری شروع ہوچکی ہے اور علاقے کے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، اشیا خوردونوش کی قلت ہے۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں