عالمی بینک11 ملین ڈالرز کو استعمال میں لانے کی اجازت دے،وزیراعلی سندھ

کورونا وائرس کا وبائی مرض ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے لہذا اسی مطابق مناسب صحت کی دیکھ بھال کا نظام وضع کیا جانا چاہئے،مراد علی شاہ کی ورلڈ بینک کے وفد سے گفتگو

جمعہ 18 جون 2021 19:37

عالمی بینک11 ملین ڈالرز کو استعمال میں لانے کی اجازت دے،وزیراعلی سندھ
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 جون2021ء) وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے عالمی بینک پر زور دیا ہے کہ وہ صوبائی حکومت کو آکسیجن پلانٹ کی تنصیب اور کوویڈ 19 سے متعلق دیگر سازو سامان کی خریداری کیلئے مختلف منصوبوں سے بچائے گئے 11 ملین ڈالرز کو استعمال میں لانے کی اجازت دے۔ یہ بات انہوں نے ناجے بنہاسین کی سربراہی میں عالمی بینک کے وفد سے ملاقات کے دوران کہی۔

عالمی بینک کے دیگر شرکا اسلام آباد سے ویڈیو لنک کے ذریعے امینہ راجہ ، عبدالزاق خلیل ، ولید انور اور دیگر شامل تھے جبکہ وزیراعلی سندھ کی معاونت چیف سکریٹری ممتاز شاہ ، صوبائی وزیر اور چیئرپرسن پی اینڈ ڈی اور سیکرٹری خزانہ نے کی۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ کورونا وائرس کا وبائی مرض ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے لہذا اسی مطابق مناسب صحت کی دیکھ بھال کا نظام وضع کیا جانا چاہئے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک الگ متعدد بیماریوں کا انسٹی ٹیوٹ اسپتال کراچی میں قائم کیا ہے اور تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں اسی طرح کی سہولیات کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ صوبے میں آکسیجن پلانٹ کے قیام کی اشد ضرورت ہے تاکہ صحت کی سہولیات کو بغیر کسی رکاوٹ کے آکسیجن کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کورونا وائرس کے مختلف لہروں اور مختلف قسموں کے باعث آکسیجن کی ضرورت پڑچکی ہے لہذا ہم کورونا کے مریضوں کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے آکسیجن پلانٹ لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

مراد علی شاہ نے یہ بھی کہا کہ مختلف سرکاری اسپتالوں میں صرف 668 وینٹی لیٹرزتھے اورکوویڈ ہنگامی صورتحال کو نظر میں رکھتے ہوئے صوبائی حکومت نے کورونا سے متعلقہ اسپتالوں میں کم از کم 500 مزید وینٹی لیٹرز کی خریداری کا منصوبہ بنایا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت نے عالمی بینک کے فنڈ سے چلنے والے مختلف منصوبوں میں تقریبا 11 ملین ڈالر کی بچت کی ہے۔

انہوں نے کہا یہ فنڈز آکسیجن پلانٹ کے قیام اور کوویڈ سے متعلق سازو سامان اور گیجٹ کی خریداری کیلئے مختص کردیئے گئے ہیں۔ورلڈ بینک کے کنٹری چیف نے کہا کہ عالمی بینک نے کوویڈ 19 ایمرجنسی کی حمایت کرتی ہے اور حکومت سندھ کی درخواست جائز ہے اور اس کے حق میں غور کیا جائے گا۔وزیراعلی سندھ نے کہا کہ سکھر بیراج کی بحالی اور جدید بنانے کیلئے سندھ بیراج کی بہتری کے منصوبوں کو عالمی بینک کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ منصوبوں کے پانچ کمپوننٹ تھے ، 2019 میں میسرز کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس لمیٹڈ کو 16.7 ارب روپے بیراج کے چھ دروازوں کی تبدیلی اور اس سے وابستہ کام کیلئے دئے گئے تھے۔ وزیراعلی سندھ نے منصوبے کی پیشرفت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ 66 فیصد فزیکل اور 64 فیصد مالی پیشرفت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی بیراج اور کھولنے /بند کرنے کے نظام میں دو گیٹ لگائے گئے ہیں اور اس پر عملدرآمد کیا گیا ہے۔

ایک گیٹ کی تنصیب کا عمل جاری ہے اور باقی تین گیٹ ستمبر تک لگادیئے جائیں گے۔ منصوبے کے دائرہ کار میں اسٹرکچر، پشتوں اور سطح کی حفاظت ، فانڈیشن انسپیکشن اور مرمت ، عمارتوں کے کام ، ساز و سامان اور نگرانی ، بجلی اور مکینیکل کام ، سی سی ٹی وی اور مواصلاتی نظام کی تنصیب کی مرمت کا کام شامل ہے۔ دوسرا کمپوننٹ سکھر بیراج کی بحالی پر تقریبا 15675 ملین روپے لاگت آئے گی۔

وزیر اعلی نے کہا کہ اس منصوبے کے اہل امیدواران کے دستاویزات جنوری 2021 میں کھولے گئے اور اکتوبر 2021 میں کام سونپا گیا ۔تیسرا کمپوننٹ 2012.5 ملین روپے لاگت کا بیراج کو کھودنے اور کھدائی کا ہے ۔ چوتھا یہ ہے کہ 150 ملین روپے میں ڈریجر کی خریداری ، دائیں کنارے کی کینالز کو ختم کرنے اور کینالز کی تعمیر کے کاموں سے 1868.2 ملین روپے سے کام کرنا ہے اور 4 ملین ڈالرز کا بیراج کی بحالی اور جدید کاری کے تعمیراتی پر نگرانی کیلئے مشیر ہے۔

اجلاس میں مزید فنڈز جاری کرنے اور دوسرے کمپوننٹ پر کام شروع کرنے پر اتفاق کیا گیا جو کوویڈ 19 کے باعث تاخیر کا شکار ہیں۔یہ پروجیکٹ 10 اضلاع حیدرآباد ، ٹھٹھہ ، میرپورخاص ، عمرکوٹ ، تھرپارکر ، شہید بینظیر آباد ، نوشہروفیروز ، خیرپور ، سکھر اور لاڑکانہ میں 30.7 ملین ڈالر سے شروع کیا گیا ہے جس کے تحت اہم اجناس میں چھوٹے اور درمیانے پروڈیوسرز کی پیداواری صلاحیت اور مارکیٹ تک رسائی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

اور سرکاری اداروں کو مستحکم بنایا جائے گا تاکہ مناسب شعبہ جاتی گروتھ حاصل کرسکیں۔ وزیراعلی سندھ نے عالمی بینک کی ٹیم کو بتایا کہ انہوں نے پروجیکٹ ٹیم نے اپنے لئے مختص کردہ اہداف کا 98 فیصد حاصل کرلیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ کے 10 اضلاع کے 153 دیہاتوں میں 153 ملک پروڈیوسر گروپ (ایم پی جی) تشکیل دیئے گئے ہیں۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ جانوروں کی پیداوار میں بہتری لانے اور 5753 ایم پی جی ممبرز کی استعدادکار اور سالانہ پیداوار میں اضافہ کیلئے سہ روزہ تربیتی ، ورکشاپس اور سیمینارز کا بھی اہتمام کیا گیا۔

منصوبے کے تحت کاشتکاروں کی صلاحیت میں اضافے کی وجہ سے جانوروں کی پیداوار، جانوروں کے پالنے کے طریقوں اور وسیع پیمانے پر جانوروں کی صحت میں 28.6 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ 153 ایم پی جیز میں سے 149 کو تعمیراتی چیلر رومز اور ملک چیلرز سے متعلقہ سازو سامان کے ساتھ تنصیب کی سہولت فراہم کی گئی ہے، جہاں دیہات کی سطح پر ڈیری کا کاروبار چل رہا ہے۔

اور جہاں تک ان کلیکشن پوانٹس کی مارکیٹ سیروابط کا تعلق ہے تو مراد شاہ نے بتایا کہ یہ قریبی شہروں کے سیل پوائنٹس کے ساتھ تیار ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایم پی جی کے کاشت کاروں نے اپنے ہی اخراجات پر ایم پی جیز کے کاشت کاروں کے ذریعہ 40 دودھ فروش والے مقامات / آٹ لیٹس کھولے جہاں وہ اپنی ایم پی جیز کو زیادہ سے زیادہ قیمت پر دودھ اور دودھ پر مبنی مصنوعات جمع کر رہے ہیں . انہوں نے کہا اور ان دیہی علاقوں میں، کسانوں کو دودھ کی لاگت پہلے (پروجیکٹ سے پہلی) کے مقابلے میں اب 60.6 فیصد زیادہ مل رہی ہے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ سب سے پہلے زراعت یونیوریٹی ٹنڈوجام میں اس منصوبے کے تحت مصنوعی انسی میشن (اے آئی) ٹریننگ سنٹر قائم کیا گیا تھا۔ 760 مصنوعی انضمام (اے آئی) ٹیکنی شن 760 کے ہدف کے مقابلہ میں قائم اے آئی ٹی سی ٹنڈوجام میں تیار کیا گیا۔ 550 اے آئی ٹیکنکل ماہرین پورے صوبے میں اے آئی خدمات انجام دینے کیلئے اے آئی کٹس اور لکویڈ نائٹروجن گیس کنٹینرز سے لیس ہیں۔

دو منی پروڈکشن یونٹ (ایس پی یو)؛ منی ڈوز کی تیاری کیلئے کراچی اور روہڑی میں تزئین و آرائش اور مستحکم بنایا گیا ہے ۔وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ اس منصوبے کے تحت لائیو اسٹاک پالیسی تشکیل دی گئی ہے اور اس پر عمل درآمد جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہالسٹک لینڈ اینڈ لائیو اسٹاک مینجمنٹ (ایچ ایل ایل ایم)کے بارے میں فزیبلٹی اسٹڈی ایچ ایل ایل ایم ٹیم زمبابوے اور سیوری انسٹی ٹیوٹ ، امریکہ نے تھرپارکر اور ٹھٹھہ ضلع کیلئے بنجر زمینوں کو گوچڑ علاقوں میں تبدیل کرنے کے منصوبے کے تحت کی تھی ،جسے حکومت سندھ نے منظور کیا ہے۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج سروسز انپروومینٹ پروجیکٹ (KWSSIP) ایک 600 ملین ڈالر کا منصوبہ ہے جس میں 120 ملین ڈالر کی سندھ حکومت کا حصہ ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پروجیکٹ کے کمپوننٹس کے ماحولیاتی اور معاشرتی جائزوں کے اسٹڈی کیلئے جس میں K-IV کو بڑھانا شامل ہے ، ایکولاجکل اسیسمنٹس برائے ویٹ لینڈ/رامسر سائٹس کیلئے ماحولیاتی تشخیص سے متعلق مشیرز کے انتخاب کیلئے اشتہار دیا گیا ہے۔

تشخیص مکمل ہوچکی ہے اور مشاورتی فرمز کو آر ایف پی جاری کردی گئی ہے۔ ایس۔ III ملیر بیسن کمپوننٹ کیلئے ماحولیاتی اور معاشرتی تشخیص کے اسٹڈی، سیوریج نیٹ ورک کی ترجیح ، ترجیحاتی نیٹ ورکس اور فلٹریشن پلانٹس کی تشہیر کی گئی تھی اور شارٹ لسٹ مشاورتی فرمز کو آر ایف پی جاری کردی گئی ہے۔ مشیروں کے انتخاب کیلئے اشتہار کے ذریعہ فزیبلٹی اسٹڈیز ، ڈیزائن کا جائزہ لینے اور K-IV بڑھانے کے کاموں کی تفصیلی انجینئرنگ ، اضافی بلک آپشنز اور آگمینشن کی یقین دہانی کیلئے سفارش کردہ آپشنز کے تفصیلی ڈیزائن اور نئے اور موجودہ فلٹریشن پلانٹس کی تعمیر بھی 100 فیصد رہی ہے۔

شارٹ لسٹ فرمز کو آر ایف پی جاری کردیا گیا ہے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ اس حوالے سے ادارہ جاتی اصلاحات کے ذریعے کے ڈبلیو ایس بی کو تبدیل کرنا ہے اور کراچی میں پائے جانے والے پانی اور سیوریج کے مسائل کی فوری حل کیلئے نشاندہی شدہ منصوبے کی پیشرفت کو آگے بڑھانا ہے اور کے ڈبلیو ایس بی کو خطے میں مالی پائیدار پانی کی افادیت بنانے کیلئے کوشش کرنا ہے۔

عالمی بینک کے تعاون سے ایس ایس ای پی نے 105 ملین ڈالر کی لاگت سے ایک منصوبہ ہے جس میں سندھ حکومت کا حصہ 5 ملین ڈالر ہے۔ پروجیکٹ عملی مرحلے میں ہے۔سندھ میں نجی شعبے کے تعاون سے سولر پارکس مسابقتی بڈنگ کے استعمال کے ذریعے قائم کئے جارہے ہیں اس حوالے سے مانجھنڈ میں ابتدائی طور پر ایک 50 میگاواٹ کا منصوبہ شروع کیا جارہا ہے جوکہ پاکستان میں پہلا بین الاقوامی سولر آپشن منصوبہ ہوگا اورسولر پارکس کی ترقی کے اضافہ میں سندھ میں 400 میگاواٹ تک بجلی حاصل ہوگی۔

سندھ میں سرکاری اور اردگرد کی عمارتوں کی چھتوں اور دیگر دستیاب مقامات پر 20 میگاواٹ تک کے سولر پی وی نصب کئے جائیں گے۔ وہ علاقے جہاں پر بجلی نہیں ہے اور انکی اآبادی کم سے کم دو لاکھ گھرانوں پر مشتمل ہے وہاں پر کمرشل سولیوشن پرووائیڈر (ایس ایس پیز) کے ذریعہ ایس ایچ ایس کی فراہمی کیلئے گرانٹ فراہم کی جائے گی۔ واضح رہے کہ این ٹی ڈی سی نے ابھی تک مانجھنڈ میں پاور ایوکیوشن سرٹیفکیٹ اور گرڈ اسٹڈی کی منظوری نہیں دی ہے اور ایس ای ایس پی نے سرکاری عمارتوں کی 20 میگاواٹ تک سولرائیزیشن کے کام کو مکمل کرلیا ہے۔

اور ایس ایس ای پی نے 12 ملین ڈالر کی بچت کی ہے۔ اجلاس میں 350 میگاواٹ کے پاور آف ٹیک کیلئے کے الیکٹرک سے رضامندی لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعلی سندھ نے محکمہ پی اینڈ ڈی کو ہدایت کی کہ وہ بچائے گئے 12 ملین ڈالرز کو مزید سرکاری عمارتوں کی سولرائیزیشن کیلئے استعمال کرنے کی منظوری دیں۔ پہلے اور دوسرے مرحلہ کیلئے سولر ہوم سپرلائیرز کا انتخاب کیا گیا ہے جنھیں 10 مقررہ اضلاع میں دو لاکھ گھرانوں کو سولرائیزڈ کرنا ہے۔ وزیراعلی سندھ نے عالمی بینک پر زور دیا کہ وہ باقی ماندہ 19 اضلاع کو بھی جاری پروجیکٹ میں شامل کریں جس کیلئے ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے یقین دلایا کہ وہ اسکے لئے اپنے فورم پر مشاورت کریں گے۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں