آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں ”مشتاق احمد یوسفی اور آصف فرخی “ کے حوالے سے عالمی مذاکرے ”نثری اسلوب“ کا انعقاد

Umer Jamshaid عمر جمشید جمعہ 17 ستمبر 2021 18:18

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں ”مشتاق احمد یوسفی اور آصف فرخی “ کے حوالے سے عالمی مذاکرے ”نثری اسلوب“ کا انعقاد
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 17 ستمبر2021ء) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام موضوع”نثری اسلوب، مشتاق احمد یوسفی اورآصف فرخی “ کے حوالے سے عالمی مذاکرہ کا انعقاد جوش ملیح آبادی و آرکائیو میں آن لائن کیاگیا، جس کی صدارت افتخار حسین عارف نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی جاوید صدیقی تھے، شرکاءمیں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، برطانیہ سے عامر حسین، کینیڈا سے شاہدہ حسن، لاہور سے ناصر عباس نیئرشامل تھے جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر فاطمہ حسن نے انجام دیے، اس موقع پر مجلس صدارت افتخار عارف نے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مشتاق احمد یوسفی ایک صاحب اسلوب نثر نگار تھے، ان کی کتابوں سے تخلیقی سفر کی وسعت اور عظمت کا احساس ہوتا ہے جیساکہ ”چراغ تلے“ میں انہوں نے آمد کا نقارہ بجایا، خاکم بدہن میں پھر اس کی گونج سنائی دی، زرگزشت میں پوری دنیا اس آدمی کو پڑھ رہی ہے لیکن جب آبِ گم آتی ہے تو پوری دنیا حیرت میں مبتلا ہوجاتی ہے، اس سے پہلے مزاح کے ساتھ دانش کی آمیزش کبھی نہیں ہوئی تھی، یوسفی صاحب کہا کرتے تھے کہ مطالعے کو تحریر سے نہیں جھلکنا چاہیے، انہوں نے بتایاکہ یوسفی صاحب کے مطالعے کی کوئی حد مقرر نہیں تھی، آپ ایک جملے کو دس دس مرتبے لکھتے اور ایک ایک لفظ کی کئی کئی بار تصدیق کرتے، غالب کے خطوط کے بعد اُردو نثر میں کوئی صاحب اسلوب نثر نگار ہے تو وہ مشتاق احمد یوسفی ہے۔

(جاری ہے)

آصف فرخی کے بارے انہوں نے کہاکہ آصف سے ہماری محبت بہت پرانی ہے، ہم اسلم فرخی کے نیاز مند ہیں، اُردو خاکوں کی کتاب میں ان سے اچھے خاکے کم دیکھنے میں آئے، وہی طرزِ تحریر آصف میں بھی پایا جاتا تھا، انہوں نے جو نثر اور طرزِ تحریر چھوڑا ہے وہ نہایت اعلیٰ اور قابلِ تحسین ہے۔ یومِ پیدائش پر اس تقریب کا منعقد ہونا خوش آئند بات ہے جس پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ کو مبارکباد دیتا ہوں۔

ہندوستان سے جاوید صدیقی نے آن لائن اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ آصف فرخی سے ”جشن ریختہ“ میں ملاقات ہوئی، وہ ایک بہت ہی محبت کرنے والے اور ملنسار انسان تھے، مشاق احمد یوسفی سے کبھی آمنا سامنا نہیں ہوا، ان کی کتاب ”چراغ تلے“ پڑھ کر مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی مگر ان کا لکھنے کا تیور ہی الگ ہے، ان کے مزاح کے پیچھے ایک سوچ اور بصیرت شامل ہے، برطانیہ سے عامر حسین نے آن لان گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ میری آصف فرخی کے انتقال سے دو ہفتے پہلے فون پر بات ہوئی تو کچھ موت کا ذکر ہوا تو کہنے لگے کہ تم سے بہت پہلے میں مر جاﺅں گا، میں یکدم چونک گیایار کیا کہہ رہے ہو اور دو ہفتے بعد وہ چلے گئے،اُن کی خواہش تھی کہ میرا تنقیدی مجموعہ دیکھیں مگراب یہ ممکن نہیں، انہوں نے کہاکہ آصف کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے میں بہت مزہ آتا تھا، آصف فرخی جس طرح اُردو اور انگریزی میں طالب علموں میں پڑھنے کا ذوق پیدا کرتے تھے اس کی مثال نہیں ملتی، ناصر عباس نیرّ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہر لکھنے والا صاحب اسلوب نہیں ہوتا بلکہ لفظوں سے جملے بنانااس کی پہچان ہوتے ہیں، ہر سمت کا اپنا اسلوب ہوتا ہے جیساکہ مزاح کا اسلوب تنقید کا اسلوب نہیں ہوسکتااسی طرح شاعری کا اسلوب فکشن کا اسلوب نہیں ہوسکتا، ا نہوں نے کہاکہ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے ہمیشہ ادب کا معاشرے سے زندہ تعلق قائم و برقرار رکھا ہے، انہوں نے کہاکہ مشتاق احمد یوسفی اُردو ادب کی بلند و بالا شخصیت ہیں ، ان کے اسلوب میں تبدیلی آتی رہتی تھی، انہوں نے اُردو مزاح کو بھی نئی روخ پھونکی ۔

کینیڈا سے پروفیسر شاہدہ حسن نے آن لائن مقالہ پڑھ کر اپنے تاثرات پیش کیے،صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے تمام شرکائے گفتگو کا شکریہ ادا کیا ۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں