آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے سے دوست ممالک سے قرضوں کے حصول میں رکاوٹیں بھی ختم ہو جائیں گی

پاکستان آٹھ سے دس ارب ڈالر مذید قرض حاصل کر سکے گا، اگلے سال پاکستان نے 21 ارب ڈالر قرض اور سود کی ادائیگی کرنی ہے اس کے رول اوور میں بھی مدد مل جائے گی: صدر آل کراچی انڈسٹریل الائنس

ہفتہ 25 جون 2022 00:04

آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے سے دوست ممالک سے قرضوں کے حصول میں رکاوٹیں بھی ختم ہو جائیں گی
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 24 جون2022ء) نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے سے دوست ممالک سے قرضوں کے حصول میں رکاوٹیں بھی ختم ہو جائیں گی اور پاکستان آٹھ سے دس ارب ڈالر مذید قرض حاصل کر سکے گا اس کے ساتھ ساتھ اگلے سال پاکستان نے 21 ارب ڈالر قرض اور سود کی ادائیگی کرنی ہے اس کے رول اوور میں بھی مدد مل جائے گی، پاکستان ڈیفالٹ سے بچ جائے گا اور ملک کے حقیقی معاشی واقتصادی مسائل چند ماہ کے لئے ٹل جائیں گے، اس وقفے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتصادی نظام کومکمل طورپرتبدیل نہ کیا گیا تو پاکستان کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔

(جاری ہے)

موجودہ اقتصادی نظام مکمل طورپرناکام ہوچکا ہے اوراب ملک کوانصاف پرمبنی ایک نئے اکنامک آرڈر کی ضرورت ہے۔ متبادل معاشی نظام کے بغیرملک کا کوئی مستقبل نہیں کیونکہ اب عالمی برادری اور دوست ممالک بھی پاکستان کوقرض دے دے کرتھک گئے ہیں۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ اقتصادی ماڈل خامیوں کا مجموعہ ہے جوملکی معیشت کودیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔

پاکستان کو ناکام سرکاری اداروں پر سالانہ 6 سو ارب روپے قومی سرمایہ لٹانے کی بجائے ان اداروں کو فوری طور پر پرائیویٹائز کرنا چاہیے، جبکہ بجلی کے شعبے میں تین سو ارب روپے لائن لاسز اور مذید تین سوارب روپے کی بجلی چوری کا سد باب کرنے کی ضرورت ہے۔ گیس کے شعبے میں بھی سالانہ ڈیڑھ سو ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ زراعت کو ترقی دے کر سالانہ 14 ارب ڈالر کی فوڈ اور زرعی اشیاء کی درآمد کم کی جا سکتی ہے۔

موجودہ معاشی نظام نہ تو حکمرانوں کوقرض لینے سے روکتا ہے اورنہ ہی وسائل لٹانے کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔ جس سیاسی جماعت کی حکومت ہوتی ہے وہ اپنے مفاد میں فیصلے کرتی ہے اورمنصوبے بناتی ہے چاہے وہ ملکی مفاد سے متصادم ہی ہوں اورانھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ جس سے عوام کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے جبکہ غریب مذید غریب ہوتے رہتے ہیں۔

اب پاکستان میں ٹیکس کے غیرموثرنظام کی وجہ سے امیراورغریب کے مابین خلیج ناقابل یقین حد تک بڑھ گئی ہے جس سے زبردست بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ اگرنیواکنامک آرڈر میں ڈائریکٹ ٹیکس کا حجم انڈائریکٹ ٹیکس سے نہ بڑھایا گیا، اشرافیہ سے ٹیکس چھوٹ واپس لے کران پرانکی آمدنی کے مطابق ٹیکس عائد نہ گئے گئے، ٹیکس بیس میں اضافہ نہ کیا گیا، صنعت میں سرمایہ کاری کوپراپرٹی اوراسٹاک ایکسچینج سے زیادہ منافع بخش نہ بنایا گیا، ملکی معیشت کودیمک کی طرح چاٹنے والے اداروں کوختم نہ کیا گیا اورقوانین کوعالمی معیار کے مطابق نہ بنایا گیا توملک کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں