حکومت اور فلاحی ادارے پاکستان کو تھیلیسیمیا فری بنانے میں اپنا کردار ادا کریں،عتیق میر

نومولود بچہ ماں باپ کی غفلت اور لاپرواہی کے نتیجے میںتھیلیسیمیا کا مرض لیکر دنیا میں آتا ہے،چیئرمین کراچی تاجر اتحاد

پیر 29 نومبر 2021 16:16

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 نومبر2021ء) حکومت اور فلاحی ادارے پاکستان کو تھیلیسیمیا فری بنانے میں اپنا کردار ادا کریں، حکومت شادی سے قبل تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی قرار دے، نومولود بچہ ماں باپ کی غفلت اور لاپرواہی کے نتیجے میںتھیلیسیمیا کا مرض لیکر دنیا میں آتا ہے اور زندگی کی آخری سانس تک دوسروں کے خون کے سہارے زندہ رہتا ہے، تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کی اوسط عمر 18سے 20سال ہوتی ہے، ماں باپ کیلئے وہ گھڑی قیامت سے کم نہیں جب تھیلیسیمیا میں مبتلاء بیشتر بچے جوانی کی دہلیز پر زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں ان خیالات کا اظہار آل کراچی تاجر اتحاد اور عتیق میر فائونڈیشن کے چیئرمین عتیق میر نے گذشتہ روز سیلانی بلڈ بینک اینڈ تھیلیسیمیا سینٹر، گلشنِ اقبال میں تھیلیسیمیا میں مبتلاء بچوں اور ان کے والدین سے ملاقات میں کیا، ان کے ہمراہ فائونڈیشن کے دیگر نمائیندگان افضل ہاشمی، الطاف لالہ، شریف میمن، شیخ رفیع، جاوید ملک، جنید باری اور حمید شاہ بھی موجود تھے عتیق میر فائونڈیشن کی جانب سے بچوں میں لنچ بکس، کھلونے اور تحائف بھی تقسیم کیئے گئے، اس موقع پر سیلانی بلڈ بینک اینڈ تھیلیسیمیا سینٹر کے ایڈمنسٹریٹر اقبال قاسمانی اور پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام سرور بھی موجود تھے، ڈاکٹر غلام سرور نے بتایا کہ معمولی احتیاط سے تھیلیسیمیا سے بچائو آسان بھی ہے اور ممکن بھی ، انھوں نے کہا کہ تھیلیسیمیاکی روک تھام سے متعلق مئوثر آگاہی نہ ہونے کے باعث اس موذی مرض میں مبتلاء بچوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے، ملک میں ایک لاکھ سے زائد بچے تھیلیسیمیا کے مرض کا شکار ہوکر انتہائی اذیتناک زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، تھیلیسیمیا میں مبتلاء بچے کو ہر ماہ اوسطاً دو سے تین مرتبہ خون کی ضرورت پیش آتی ہے جوکہ دردمند دل رکھنے والے افراد عطیہ کرتے ہیں، انھوں نے معاشرے کے دردمند اور صحتمند افراد سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اپنے خون کا عطیہ دیں اور تھیلیسیمیا میں مبتلاء بچوں کی زندگیاں بچائیں، انھوں نے کہا کہ صحتمند انسان کے جسم میں خون کی اضافی مقدار ہوتی ہے ایسا شخص تین ماہ میں ایک مرتبہ خون کی ایک بوتل عطیہ کرسکتا ہے، اس عمل سے خون کا عطیہ دینے والے انسان کی صحت اور جسمانی کارکردگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا، موٹاپا کم ہوتا ہے، دل کے امراض کے خطرات کم ہوجاتے ہیں، ہڈیاں مضبوط اور جوڑوں کے درد میں کمی ہوتی ہے جبکہ عطیہ کیا جانے والا خون اگلے تین ماہ میں دوبارہ پیدا ہوکر جسم میں شامل ہوجاتا ہے، انھوں نے یہ بھی بتایا کہ خون عطیہ کرنے سے انسان کے جسم میں آئرن کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس سے جسم میں طاقت اور صحت میں بہتری آتی ہے، جن لوگوں کی عمر 17سال سے زیادہ اور وزن 50 کلویااس سے زیادہ ہے وہ خون عطیہ کرسکتے ہیں انھوں نے کہا کہ سیلانی بلڈ بینک اینڈ تھیلیسیمیا سینٹر، گلشنِ اقبال میں خون کا بلامعاوضہ ٹیسٹ کرنے کے بعد خون کا عطیہ وصول کیا جاتا ہے جبکہ ٹیسٹ کے ذریعے جسم میں متعدد بیماریوں اور خون کی مقدار سے متعلق آگاہی حاصل ہو۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں