43فیصدخودکشیاں جینیاتی ،57 فیصد ماحولیاتی عناصر کی وجہ سے ہوتی ہیں،ڈاکٹر اقبال آفریدی

منگل 22 اکتوبر 2019 20:51

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 اکتوبر2019ء) معروف ماہر نفسیات اور جناح اسپتال کراچی کے شعبہ نفسیات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی نے کہا کہ مینٹل ہیلتھ کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی ہونی چاہیئے کہ میٹنل ہیلتھ کیا ہے اور اس کے لئے کیا جدوجہد کرسکتے ہیں۔خوش قسمتی سے پاکستان کی 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔

ہمارے نوجوانوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے اگر ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے کے مواقع فراہم کئے جائیں تودنیا کی کوئی طاقت ہمیں بہترین قوموں میں شمار ہونے سے نہیں روک سکتی۔یہ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر جو بیماریاںہیں چاہے وہ یورولوجیکل ہویا کینسر ہووہ دیر سے شروع ہوتی ہیں جبکہ نفسیاتی بیماریاں نوعمری سے ہی شروع ہوتی ہیںاور اس بیماری کا شکار ہونے والا اگر اسٹوڈنٹ ہے تواس کی اکیڈمک خراب ہوگی اور اگر ورکرہوتواس کی پروڈکٹویٹی خراب ہوگی۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ نفسیات کے زیر اہتمام کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی کی سماعت گاہ میں منعقدہ سیمینار بعنوان: ’’یوتھ ایمبسڈرز آف لائف اینڈ ہوپ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ڈاکٹر اقبال آفریدی نے مزید کہا کہ ہماری 95 فیصد بیماریاں قابل علاج ہیں،43 فیصدخودکشیاں جینیاتی جبکہ 57 فیصد ماحولیاتی عناصر کی وجہ سے ہوتی ہیں ،پہلے کہا جاتا تھا کہ جین میں تبدیلی نہیں آسکتی لیکن اب کہا جا تاہے کہ جین میں بھی آپ تبدیلی کرسکتے ہیں۔

خودکشی کی بڑی وجوہات میں مالی مسائل بھی شامل ہیں جس کے لئے ہم سب کو ملکر جدوجہد کرنی ہوگی۔انہوں نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وقت پر سوئے ،وقت پر اُٹھیں،عبادت کریں،ورزش کریں اور ایک دوسرے کا خیال رکھیں تو مسئلہ ہی نہیں ہوگا۔پاکستان میں فیملی سسٹم ایک آج بھی ایک بڑا سماجی اثاثہ کیونکہ جب گھروالے موجود نہ ہو تو ایمرجنسی کی صورت میں مریض کو محلے والے بھی لے جاتے ہیں جبکہ یورپ میں ایسا نہیں ہے ہمارا تو یہ سماجی اثاثہ ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں ۔

جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ خودکشی کے رجحانات میں اضافے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک سوشواکنامک کا عنصر بھی ہے۔ہمیں کمیونٹی میں ڈائیلاگ کے کلچر کو بحال کرنے کی ضرورت ہے ،اگر خودکشی یا اس جیسے دیگر مسائل پرقابوپانا ہے تو ہمیں کمیونٹی کی اہمیت اور افادیت کواجاگر کرکے اس سے استفادہ کرناہوگا ۔

انفرادی یا اجتماعی طور پر کی جانے والی کوششوں کا تناسب کمیونٹی کی کامیابی کے تناسب سے کم ہوتاہے کمیونٹی کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات اور کوششوں کے دیرپا اور دوررس نتائج مرتب ہوتے ہیں۔امریکی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے شیخ الجامعہ کا کہنا تھا کہ خودکشی اور طلاق کے واقعات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ آپس میں بات چیت کا کم ہونا یا نہ ہونا شامل ہے۔

ہمیں ان وجوہات اور اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجوہات اور سدبات کے لئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔نامور آرٹسٹ خالد انعم نے اپنے ذاتی تجربات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بہت سے عناصر ایسے ہوتے ہیں کہ جب انسان اور بالخصوص کم عمری میں زندگی سے مایوس ہوکر اپنی جان لینے کی سوچنے لگتاہے ،تاہم اگر وہ اپنے والدین ،بہن بھائیوں،استاد اور دوست احباب کے ساتھ اپنے مسائل پر گفتگو کرے تو وہ اچھا محسوس کرنے لگتاہے اور اگر ایسے فرد کو مناسب طریقے سے خودکشی سے روکنے کے اقدامات کئے جائیں تو بہترنتائج حاصل ہوتے ہیں۔

بحریہ یونیورسٹی کی ڈاکٹر زینب زیدی نے کہا کہ جب ہم صرف اپنی تکالیف اور پریشانیوں کے بارے میں ہی سوچتے رہتے ہیں تو اس سے ہمارے مسائل میں اضافہ ہی ہوتاہے اور اگر ہم ازخودیا کسی دوسرے شخص کی مدد سے اپنے آپ کو پر سکون کرکے مسئلے کے حل کی طرف توجہ دیتے ہیں تواس مسئلے کا حل بھی نظر آنے لگتاہے اور اس پریشانی کے اثرات بھی زائل ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔جامعہ کراچی کے شعبہ نفسیات کی چیئر پرسن پروفیسر ڈاکٹر قدسیہ طارق نے جامعہ کراچی کے شعبہ نفسیات کے قیام سے لے کر اب تک ہونے والی تحقیقی سرگرمیوں پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے خودکشی کے مختلف پہلواور وجوہات پر سیرحاصل گفتگو کی۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں