پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جو تحلیل یا ضائع نہیں ہوتا، یہ باقی رہتا ہے اور مسلسل آلودگی کا باعث بنتا ہے،ڈاکٹر خالد عراقی

بدھ 23 اکتوبر 2019 21:03

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 اکتوبر2019ء) جامعہ کراچی کے شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی پروفیسر ڈاکٹر انجم نواب نے کہا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سوملین ٹن پلاسٹک تیا رہوتاہے جبکہ اس میں تقریباً ہرسال 9 فیصد اضافہ ہوتاہے۔پلاسٹک کی تیاری میں جو اہم کیمیکلز استعمال کئے جاتے ہیںجو بہت ہی زیادہ مضر صحت ہوتے ہیں۔

ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پلاسٹک صدیوں تک تحلیل نہیں ہوپاتے اور اسی وجہ سے یہ انسانی زندگی اور دنیا کے لئے خطرناک سمجھے جاتے ہیں۔پلاسٹک چھوٹے چھوٹے ذرات میں تبدیل ہوکرنہ صرف انسانوںومویشی بلکہ آبی حیات اور چرند وپرند کے لئے بھی نقصان دہ ہیں۔پلاسٹک کے زمین پر چند منفی اثرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پلاسٹک کی موجودگی لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ بھی بن جاتی ہے اورپلاسٹک کی موجودگی کی وجہ سے زرعی پیداوار پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

دریائوں اور سمندروں میں پلاسٹک کی موجودگی کی وجہ سے آبی حیات شید ید خطرات سے دوچار ہیں ،سمندری پرندے ،مچھلیاں اوردیگر پلاسٹک کو خوراک سمجھ کر کھالیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے جامعہ کراچی کے آفس آف ریسرچ اینوویشن اینڈکمرشلائزیشن اور شعبہ نباتیات جامعہ کراچی کے اشتراک سے کلیہ فنون وسماجی علوم کی سماعت گاہ میں منعقد پروفیسر ڈاکٹر مصطفی شمیل میموریل سیمینار بعنوان: ’’پلاسٹک سے ہونے والی آلودگی سے بچائو اور اس کا حل ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ڈاکٹر نجم نواب نے مزید کہا کہ پلاسٹک کے متبادل کے طور پر ہمیںبائیوڈیگریڈیبل پلاسٹک کا استعمال کرنا چاہیئے جو کہ ایک وقت پر مکمل طور پر تحلیل ہوجانے کی صلاحیت رکھتاہے۔مخصوص حالات میں بائیوپولیمر سے بنے پلاسٹک 180 دن یا اس سے بھی کم وقت میں تحلیل ہوجاتے ہیں ۔بائیوبیسڈ پلاسٹک نان ری سائیکل ایبل ہوتاہے۔جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جو تحلیل یا ضائع نہیں ہوتا، یہ باقی رہتا ہے اور مسلسل آلودگی کا باعث بنتا ہے،اس میں موجود کیمیکلز کی وجہ سے نہ صرف انسانی صحت کو خطرات لاحق ہیں بلکہ سمندرمیں شامل ہونے کی وجہ سے یہ آبی حیات کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ ہے۔

سمندری مخلوق اور آبی پرندے بھی پلاسٹک کے تباہ کن اثرات کاشکارہوجاتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پلاسٹک کے مضرصحت اثرات سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ اس حوالے سے شروع ہونے والی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ہم سب اپنا اپنا کردار ادارکریں تاکہ پلاسٹک کے تباہ کن اثرات سے معاشرے کو محفوظ کیا جاسکے۔شیخ الجامعہ نے آفس آف ریسرچ اینوویشن اینڈ کمرشلائزیشن اور شعبہ نباتیات جامعہ کراچی کو اس اہم مضوع پر سیمینار کرنے پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ اس طرح کے سیمینار ز کا انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر مصطفی شمیل معروف ماہر نباتیات ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شفیق استاد بھی تھے ،شعبہ نباتیا ت کے لئے ان کی خدمات کو ہمیشہ یادرکھا جائے گا۔ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی شاہ زین پرویزنے کہا کہ دنیا کے پانچ پلاسٹک سے آلودہ دریائوں میں سب سے زیادہ آلودہ دریائوں میں دریائے سندھ دوسرے نمبر پر ہے۔افریقہ میں واقع دریائے نیل پانچویں جبکہ چین کے تین دریا اس فہرست میں شامل ہیں۔

2016ء میں 480 بلین بوتلیں فروخت کی گئیں تھیں جوکہ 10 سال پہلے صرف 300 بلین تھیں۔دنیا بھر میں استعمال ہونے والی پلاسٹک کا پچاس فیصد صرف ایشیائی ممالک جبکہ اس کا نصف چین استعمال کرتاہے۔پاکستان میں چھ ہزار پلاسٹک پروڈکٹس کے مینوفیکچرز موجود ہیں اور دریائے سندھ میں 164,332 ٹن پلاسٹک ویسٹ پایاگیاتھا۔ڈائریکٹر آفس آف ریسرچ اینوویشن اینڈ کمرشلائزیشن اور چیئر پرشن شعبہ نباتیات جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر عالیہ رحمن نے کہا کہ الجی زندگی کے مختلف شعبوں میں اہمیت کی حامل ہے اور اس کی وجہ اس میں پائے جانے والے قدرتی اجزا ہیں جو انسانی جسم کے لیے بے حد اہم ہیں۔

جسم کی اساسی پی ایچ کو برقرار رکھنے میں بھی الجی فوڈ کی اہمیت ہے۔ ہماری صنعت ہر سال کئی ہزار ٹن سمندری کائی (Sea weed ) استعمال کرتی ہیں اور اب یہ بائیو فیول کے طور پر بھی استعمال ہو رہی ہے۔سمندری کائی (Sea weed ) کو کمرشل سطح پر پیدا کرنے کا کام اب 35 ملکوں میں شروع ہو چکا ہے کیونکہ قدرتی پیداوار سے زیادہ استعمال موجود ہے۔ہماری سمندری پٹی پر موجود سمندری کائی بے حد مفید ہیں لیکن انھیں مناسب طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے شعبے کے طلبہ نے بحری کائی کی مدد سے قدرتی ڈائیز، بائیو پلاسٹک اور جلد کی نشوونما کی ادویات کی تیاری میں بہت کام کیا ہے جس کی وجہ سے انھیں 2017 میں DICE کے سائنسی ترقی کے مقابلے میں پہلا انعام بھی ملا۔سیمینارسے جامعہ کراچی کے رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر سلیم شہزاد،پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے ڈاکٹر عاصم ریحان کاظمی،شعبہ نباتیات جامعہ کراچی کی ڈاکٹرلیلیٰ شہناز اور سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے شعبہ انوائرمینٹل سائنسز کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حنا شہنازنے بھی خطاب کیا۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں