آرٹس کونسل میں عالمی اُردو کانفرنس کی بارہویں تقریب کا پُروقار انداز میں انعقاد کیا گیا

جمعرات 5 دسمبر 2019 23:56

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 دسمبر2019ء) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں تسلسل کے ساتھ ہر سال جاری رہنے والی عالمی اُردو کانفرنس کی بارہویں تقریب کا انعقاد 5دسمبر جمعرات کی شام پُروقار انداز میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے آڈیٹوریم میں کیاگیا جس میں بھارت سمیت دُنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے شعراء، ادیبوں اور اسکالروں نے شرکت کی، افتتاحی اجلاس کی صدارت معروف ادبی شخصیات زہرا نگاہ، اسد محمد خاں، کشور ناہید، رضا علی عابدی، افتخار عارف، امجد اسلام امجد، پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، مسعود اشعر، حسینہ معین، چین سے آئے ہوئے ٹینگ مینگ شنگ، جاپان سے تعلق رکھنے والے ہیروجی کتاوکا، زاہد حنا، نورالہدیٰ شاہ اور عارف نقوی نے کی جبکہ بھارت سے آئے ہوئے ممتاز نقاد، ادیب اور دانشور پروفیسر شمیم حنفی اور ہیومن رائٹس آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری حارث خلیق نے ادب اور سماج کے حوالے سے اپنے اپنے مقالے پیش کیے، اجلاس کی نظامت کے فرائض ایوب شیخ نے انجام دیئے، اجلاس میں شریک تمام شعراء اور ادباء کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر محمد احمد شاہ نے خوش آمدید کہا، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر شمیم حنفی نے کہاکہ کسی جزیرے میں رہ کر نہ ہی کوئی شعر تخلیق کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی افسانہ لکھا جاسکتا ہے، زندگی کی رفتار تیز سے تیز تر ہورہی ہے جبکہ ادب کی رفتار سست ہوتی ہے، ہم نے زمین کے ساتھ ساتھ ادب کو بھی آلودہ کردیا، شور شرابے میں بہترین ادب تخلیق نہیں کیا جاسکتا، معاشرہ میں یہ صورتِ حال ہوتو ادیبوں پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، آج ہم جن اندھیروں میں موجود ہیں اس کی وجہ ہماری بے تحاشہ اور اندھا دھند ترقی بھی ہے، انہوں نے کہاکہ شعر اور ادب کی تخلیق کبھی بھی ہانپتے کاپنتے نہیں کی جاسکتی، ادبی اخلاقیات کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، تاریخ اور سماجیات کی دُنیا علیحدہ علیحدہ ہیں، گلوبلائزیشن کے نام پر ہم مستقل جھوٹ بھول رہے ہیں، یہ بہت ضروری ہے کہ ہمیں آج کے دور کے ساتھ اپنی روایات کو دوبارہ سمجھنا ہوگا، انہوں نے صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ کو مسلسل بارہویں بار عالمی اُردو کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی اور ان کی ٹیم کی صلاحیتوں کو سراہا، انہوں نے ازراہِ تفنّن کہاکہ احمد شاہ جس تسلسل کے ساتھ اور پابندی سے عالمی اُردو کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں اس سے کم از کم مجھے اپنی عمر کی پیمائش کا ایک ذریعہ بھی ہاتھ آگیا ہے، انہوں نے کہاکہ بھارت میں23زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے، ہم ابھی اخلاقی پسماندگی کے دور میں رہ رہے ہیں مگر یہ بہت ضروری ہے کہ ہم سب کو اس صورتحال سے نکلنے کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھنا ہوگا۔

(جاری ہے)

ہیومن رائٹس آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری حارث خلیق نے کہاکہ عالمی اُردو کانفرنس کا اجتماع ہم سب کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنے حالات و واقعات سے کس قدر باخبر ہیں، اس عہد میں ہم بالخصوص دو بحرانوں کا شکار ہیں جس میں ایک فطرت اور دوسرا سماجی بحران ہے، آزادئ اظہار پر قدغن ہے، مذہب اور قوم پرستی کی آڑ میں مختلف باتیں کہی جاتی ہیں، تجارتی ذرائع ابلاغ کی سنسنی خیزی ہمارے معاشرے میں انتشار پیدا کررہی ہے، انہوں نے کہاکہ ہماری ریاست نے اب تک شہریوں کو اپنی رعایا سمجھا ہوا ہے، ہماری علمی پسماندگی نے اجتماعی فکر کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے ،علمی نظریہ سازوں کے فقدان کے باعث ہم تعصب، خوف اور غصے کا شکار ہیں اس صورتحال میں ہمارے پاس لے دے کر اگر کچھ بچا ہے تو وہ صرف فن اور ادب ہے جہاں اب تک کوئی کال نہیں، انہوں نے کہاکہ ادب کا یہ کردار انتہائی ضروری ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والے کو جگائے، جھنجھوڑے اور اس میں ایک تحریک پیدا کرے جس کی بدولت وہ اپنے سفر کو بغیر کسی خوف کے آگے کی طرف رواں دواں رکھ سکے، فیض احمد فیض جیسے شعراء صرف اپنی شاعری کی وجہ سے آگے نہیں ہیں بلکہ ان کا یہ مقام اس لیے ہے کہ انہوں نے سب کچھ اپنے اندر سمو لیاتھا، افتتاحی اجلاس کے اختتام پر جوش ملیحہ آبادی کی 121ویں سالگرہ کا کیک بھی کاٹا گیا۔

متعلقہ عنوان :

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں