سندھی ادب کو کوئی خطرہ نہیں مگر چیلنجز ہیں اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ اردو کانفرنس میں شرکاء کی گفتگو

اتوار 8 دسمبر 2019 00:04

کراچی۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 07 دسمبر2019ء) سندھی ادب کو کوئی خطرہ نہیں ہے مگر چیلنجز ہیں اس کا مقابلہ کرنا ہے تاکہ ادب کی مزید ترقی ہوسکے، اس کی حفاظت نوجوان لکھنے والوں کو کرنا ہے۔ ان خیالات کا اظہار آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقد ہونے والی چار روزہ بارہویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز کے جدید سندھی ادب" کے موضوع پر منعقدہ سیشن سے معروف دانشوروں نے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

مقررین میں ممتاز بخاری ، مظہر جمیل ، نورالہدی شاہ ، ریاضت برڑو، پروفیسر نور احمد جنجہی شامل تھے جبکہ ڈاکٹر قاسم راجپر نے میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ مقررین نے کہا کہ دیگر ادب کی طرح سندھی ادب بھی دبائو کا شکار رہا مگر سندھی زبان میں لکھی گئی کہانیوں نے معاشرے پر گہرا اثر چھوڑا ہے ،موجودہ دور میں کہانی اور ناول میں تبدیلی آئی ہے ،یہ دراصل سوچ میں تبدیلی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ معاشرتی تبدیلیوں کا اثر ادب پر بھی پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھی زبان و ادب کی مثال یہ ہے کہ دیگر زبانوں کے مقابلے میں سندھی زبان و ادب نے تیز رفتاری سے ترقی نہیں کی سندھی زبان سے اردو میں تراجم ہوئے ہیں مگر شاہ لطیف کا تراجم سب سے بڑا کام ہے۔ اردو اور سندھی نے ایک دوسرے کو بہت کچھ دیا سچل سرمست اردو میں شاعری کرتے تھے مرزا خلیق بیگ کے زمانے بھی تراجم ہوئے۔ دانشوروں نے کہا کہ ڈرامہ بنیادی طور پر اربن مزاج کا کام ہے، سندھی ڈرامے کی کہانی میں سندھی لکھنے اور سوچنے والے کو ذہنی طور پر اربنائز ہونا چائے۔ مڈل کلاس سماج میں جدت لاتا ہے زبان اور ادب میں بھی جدت آنی چاہیے، اس کو آپ روک نہیں سکتے۔

متعلقہ عنوان :

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں