ذ* حافظ نعیم الرحمن کا چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جناب گلزار احمد کو خط

کے الیکٹرک کے معاملات اور اس ادارے کی جانب سے کراچی کے عوام کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں اور ظلم کے حوالے سے از خود نوٹس لینے کی اپیل

اتوار 19 جنوری 2020 23:20

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 جنوری2020ء) امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ، جسٹس جناب گلزار احمد کو ایک خط ارسال کیا ہے ۔ جس میں ان سے اپیل کی گئی ہے کہ کے الیکٹرک کے معاملات اور اس ادارے کی جانب سے کراچی کے عوام کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں اور ظلم کے حوالے سے از خود نوٹس لیں کیونکہ کے الیکٹرک کراچی کے شہریوں کے بنیادی حقوق کو متاثر کر رہا ہے جن کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے ۔

خط میں کے الیکٹرک کے حوالے سے مضبوط دلائل اور درست اعدادو شمار کی روشنی میں اصل حقا ئق پر مبنی نکات بیان کیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ ہم نے ان نکات پر مبنی کیس سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں داخل کیے ہوئے ہیں جو ظاہر ہے سماعت نہ ہونے کی وجہ سے زیرِ التواء ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن معاملات اس قدر گھمبیر اور مشکوک ہو چکے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اب معمول کی عدالتی کارروائی کے علی الرغم معزز سپریم کورٹ کو اس معاملہ کا از خود نوٹس لینے اور بھر پور اورمسلسل عدالتی کارروائی کی ضرورت ہے۔

یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ KEکے مالکان کمپنی کو فروخت کر کے غائب ہونا چاہتے ہیں، جس کے نتیجے میں بہت سے معاملات جو KE کے ذمہ ہیں ان کے موقوف ہو جانے کا قوی خدشہ ہے ۔ K.Eکی کمپنی ابراج کے بانی CEO عارف نقوی پر دبئی میں تاریخ کا سبب سے بڑا جرمانہ ہوا ، لندن میں کیس بنا اور ضمانت پر رہا ہوئے لیکن جرائم میںملوث ہونے کے باوجود وطن عزیز مین ان کی اس قدر پزیرائی ہے کہ وہ وزیر اعظم سے مشاورت میں شامل ہے جو حکومت کی K.E کے لیے غیر معمولی حمایت ظاہر کرتی ہے۔

حافظ نعیم الرحمن نے چیف جسٹس کے نام اپنے خط میں مزید کہا کہ آپ کو کراچی کے مسائل اور ان کی وجوہات بتانا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ لیکن اتنی بات کہنے کی جسارت ہم ضرور کریں گے کہ شہر کے مسائل میں سب سے پیچیدہ / سنگین اور پُر اسرار مسئلہ کے الیکٹرک کا ہے۔ KESC سے K الیکٹرک بننے تک کی کہانی ،اس کی انتہائی ارزاں قیمت پر فروخت در فروخت، اس کے حوالے سے معاہدے اور ان میں کمپنی کو فائدہ پہنچانے والی ترامیم ،اربوں روپے نفع کمانے کے باوجودحکومت کی جانب سے کمپنی کو دی جانے والی مراعات اور کمپنی کے بجلی کا نظام میں بہتری لانے کے لیے کیے گئے وعدوں کے خلاف طرز عمل سب ہی تحقیق اور کارروائی کا تقاضہ کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں کچھ اہم نکات یہ بھی ہیں۔ کمپنی کی جانب سے اربوں روپے کے تانبہ کے تار اُتارنے کے بعد ایلومینیم کے تار ڈالے گئے لیکن منافع در منافع کے لالچ میں ارتھ / گراؤنڈ سسٹم نہ ڈالا گیا ۔ نتیجتاً ہر دفعہ بارش کے موسم میں بیسوں ہلاکتیں کرنٹ لگنے سے ہوتی رہیں۔ شدید احتجاج کے بعد اب ارتھ سسٹم ڈالا جا رہا ہے لیکن کے الیکٹرک کی غفلت سے جس کو نیپرا نے اپنی رپورٹ میں بھی تسلیم کیا ہے، ضائع ہونے والی جانوں کا مداوا کون کرے گا کمپنی ہر جانہ تک دینے کو تیار نہیں چنانچہ مجبوراً لواحقین عدالتوں سے رجوع کر رہے ہیں لیکن حکومت خاموش تماشائی ہے۔

سستی بجلی کی خاطر پلانٹ گیس سے چلائے جاتے ہیں۔ گیس کم ہونے کی صورت میں فرنس آئل سے پلانٹ چلانے کے بجائے لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔ 650 میگا واٹ بجلی وفاقی حکومت ارزاں نرخ پر K.E کو فراہم کرتی ہے۔ لیکن عوام سے بل فرنس آئل سے پیدا کردہ بجلی کے حساب سے لیے جاتے ہیں۔ K.E کو مختلف مدات میںنیپرا کی جانب سے مراعات دی جاتی ہیں اس کی وجہ شاید KEسے فارغ افراد کا نیپرا میں تقرر بھی ہے۔

نیپرا کی جانب سے ہر حال ہی میں فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 1.50 روپے اور سہ ماہی ایڈ جسٹمنٹ کی مد میں بجلی 4.90 روپے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ جس کی کوئی حقیقی توجیح ممکن بھی نہیں۔ اس کا بوجھ چاہے براہ راست صارفین پر پڑے یا قومی خزانے پر، ہر حالت میں یہ صریح ظلم اور نا انصافی اور کمپنی کو بلا استحقاق فائدہ پہنچانے کی کوشش ہے۔

نیپرا نے KE کو کلاء بیک کی مد میں 22ارب روپے صارفین کو لوٹانے کا ذمہ دار قرار دیا گیا لیکن آج تک ایک پیسہ بھی نہیں لوٹایا گیا ۔ اس کے بجائے کورٹ سے Stay لے لیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات عرض کرنی ضروری ہے کہ کے الیکٹرک نے گذشتہ سال وکلاء کی فیسوں کی مد میں 38کروڑ روپے خرچ کیے۔K.E کو معاہدے کے مطابق سسٹم کی بہتری پر تین سال میں 361 ملین ڈالر خرچ کرنے تھے لیکن اسی پرانے سسٹم کو چلایا جا رہا ہے جس کی واضح دلیل KE کا پرائیوٹ کمپنیوں سے بجلی خریدنا ہے۔

K.E کو معاہدے کے مطابق 1300میگا واٹ بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرنا تھا لیکن یہ نہ کیا گیا ورنہ نجی کمپنیوں سے مہنگی بجلی خریدنے کی نوبت نہ آتی۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ڈبل بنک چارجز اور میٹر رینٹ کے نام پر KE نے سالہا سال اربوں روپے وصول کیے لیکن نیپرا خواب خرگوش سے نہ جاگی۔ یہ بات بھی حیرت کا باعث ہے کہ بجلی کی تیاری اور اس میں تیل اور گیس کا تناسب اور بجلی کی کل پیدوار کو ناپنے کے آلات نصب ہی نہیں کیے گئے چنانچہ نیپرا KE کے فراہم کردہ اعداد و شمار ہی کی بنیاد پر فیصلے صادر کرتا ہے۔#

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں