مہنگائی، بے روزگاری عروج پر ہے، کاروبار ٹھپ اور آمدنی بدترین تنزلی کاشکار ہے، اس کی بڑی ذمہ داری وزیر اعظم پر آتی ہے، مصطفی کمال

ملک اس وقت آٹو پر چل رہا ہے،وزیر اعظم نے نیب، الیکشن کمشنر اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کا سربراہ بھی اپوزیشن کی مشاورت سے لگانا ہوتا ہے لیکن حکومت نے ملک میں آئینی بحران پیدا کر دیا ہے،چیئرمین پی ایس پی

اتوار 25 اکتوبر 2020 19:45

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 اکتوبر2020ء) پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال نے کہا ہے کہ بدترین مہنگائی، بے روزگاری عروج پر ہے، کاروبار ٹھپ اور آمدنی بدترین تنزلی کاشکار ہے، اس کی بڑی ذمہ داری ملک کے وزیر اعظم پر آتی ہے۔ اس صورتحال کے باعث جہاں غریب مر رہا ہے وہاں اسکے گھر والے قبر اور کفن کیلئے بھی مقروض ہو رہے ہیں۔

عمران خان نے جس گیئر پر اپنی الیکشن مہم چلائی اسی گئیر میں حکومت میں آگئے، عوام کو بھول کر اپوزیشن یاد رہی۔ ملک اس وقت آٹو پر چل رہا ہے۔ وزیر اعظم نے نیب چیئرمین، الیکشن کمیشنر اور پبلک اکانٹس کمیٹی کا سربراہ بھی اپوزیشن کی مشاورت سے لگانا ہوتا ہے لیکن حکومت نے ملک میں آئینی بحران پیدا کر دیا ہے، وزیراعظم کے اپوزیشن سے بات نہ کرنے کی وجہ سے ملکی امور ٹھپ پڑچکے ہیں، بقول حکومت اپوزیشن سے بات کرنا حرام لیکن سینیٹ الیکشن میں ووٹ حاصل کرنا حلال ہے، مجبورا امور سلطنت چلانے کے لیے اداروں کو کردار ادا کرنا پڑا۔

(جاری ہے)

ایف اے ٹی ایف اور سینیٹ انتخابات پر اپوزیشن اور حکومت کو ایک پیج پر کیا تو اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ آج پوری اپوزیشن انکے خلاف ہوگئی ہے۔ چند ماہ قبل آرمی چیف کی ایکسٹینشن پر اپوزیشن جماعتوں نے ووٹ ڈالا تھا اور آج موقف تبدیل کرلیا۔ حکومت سمیت اپوزیشن کیلئے ملک کا استحکام سب سے اہم ہونا چاہیے، ملک میں موجود بحران کا خمیازہ عام شہری کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

10 جماعتوں نے مل کر کراچی میں گرانڈ سجایا اور کہا کہ حکومت گرا دو اور ہمیں حکمران بنا دو جبکہ پی ڈی ایم کی میزبان پیپلز پارٹی جو آج بہت انقلابی بن رہی ہے خود سندھ میں حکمران ہے جنکے 12 سالہ حکومتی انقلاب کا یہ نتیجہ ہے کہ کتوں کے کاٹنے کی ویکسین نہیں ہے۔ پی ڈی ایم کے کراچی جلسے میں پاکستان کو چلانے والے شہر کراچی کی کسم پرسی پر کوئی بات نہیں کی گئی جو ایک ماہ پہلے تک ڈوبا ہوا تھا، اردو زبان اور اردو بولنے والوں کی تذلیل کی گئی۔

ہم نے کراچی کی رونقیں بحال کرنے کے لے مسئلہ اور اس کا حل بھی بتایا ہے۔ کراچی کو خیرات نہیں بلکہ اس کا حق چاہیے، جو شہر ساڑھے 3 ہزار ارب کما کر دیتا ہے اسے کسی پیکج کی ضرورت نہیں۔چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ کراچی میں 2 راتوں کیلئے آ کر بیٹھے تھے لیکن اب بھی اگر کچھ نہیں ہو رہا اور اگلی بارش میں لوگ مرے تو عوام کی امیدیں وفاقی حکومت سے نہیں بلکہ آرمی چیف سے ٹوٹیں گی، جو پاکستان کے لیے درست نہیں ہوگا۔

آرمی چیف اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے یہ 6 کام وفاقی اور صوبائی حکومت سے ٹھیک کروا دیں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ کراچی کی گنتی ٹھیک کرا دیں، اٹھارویں ترمیم کے بعد جو اختیارات وزیر اعلی سے نیچے منتقل نہیں ہوئے وہ ضلعی انتظامیہ تک منتقل کروا دیں، این ایف سی ایوارڈ کے طرز پر پی ایف سی ایوارڈ کا اجرا کرا دیں، کراچی کو 7 حصوں میں توڑ دیا گیا ہے، جس سے مسائل بڑھ رہے ہیں اسے ایک ڈسٹرکٹ کی صورت میں بحال کرا دیں۔

جب سندھ کی تقسیم نا منظور ہے تو کراچی کی تقسیم بھی نا منظور ہونی چاہیے۔ کراچی کے تمام اختیارات منتخب میئر کو دلا دیں، ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کو تمام اختیارات کے ساتھ پہلے کی طرح علحیدہ طور پر بحال کرا دیں۔ 8 نومبر کو باغ جناح میں پی ایس پی کا بڑا جلسہ کیا جائے گا جس میں میں پورے پاکستان کو بتائیں گے کہ کراچی کے کیا مسائل ہیں اور انکا حل کیا ہے۔

تمام مسائل کی جڑ پیپلزپارٹی ہے، یہ لوگ اب اختیارات دیں گے یا کراچی کے لوگ انکا احتساب کریں گے، انتخابات سے تبدیلی کی کوئی امید نظر نہیں آتی، یہ تبدیلی نہیں تباہی ہے، اگر یہ لوگ واقعی جمہوری لیڈران ہوتے تو انتخابی اصلاحات پر بات کرتے۔ کوئی تبدیلی آ بھی گئی تو پورے ملک میں آ جائے گی لیکن سندھ میں تو پیپلزپارٹی ہی رہے گی۔ یہ آج کہتے ہیں کہ الیکشن چوری ہوگیا تو تمام اپوزیشن جماعتیں استعفی دے دیں ایک گھنٹے میں حکومت ختم ہو جائے گی جلسے جلوسوں کی ضرورت نہیں۔

حکومت نے بھی اداروں کو اپنی ڈھال کے طور پر بے دردی سے استعمال کیا ہے۔ ملک میں اس وقت دو کام ہو رہے ہیں، حکومت اپوزیشن بینچز پر بیٹھے اراکین کو چور گردانے میں جبکہ اپوزیشن حکومت گرانے میں اپنی توانائیاں صرف کر رہی ہے۔ دونوں کے پاس پاکستان کے لوگوں کے لیے نہ وقت ہے نہ پلان، ملک تباہ و برباد ہو گیا۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں