سول سوسائٹی کے نمائندوں کاتھرمیںبے گھر لوگوں کی بحالی وآبادکاری سے متعلق پالیسی بنانے کا مطالبہ

تھر میں کوئلہ کی کان کنی اور بجلی گھروں کے قیام کے لیے حصول اراضی اور بے گھر لوگوں کی بحالی و آبادکاری سے متعلق عوام دوست پالیسی کا اجرا کیا جائے، مجوزہ پالیسی تھر کے مقامی لوگوں کی مشاورت اور شراکت سے تشکیل دی جائے ، پریس کانفرنس

بدھ 25 نومبر 2020 15:25

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 نومبر2020ء) سول سوسائٹی کے نمائندوں نے تھر میں بغیر کسی پالیسی جاری حصول اراضی اور بے گھر لوگوں کی بحالی و آباد کاری میں بڑھتی ہوئی بے ضابطگیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تھر میں کوئلہ کی کان کنی اور بجلی گھروں کے قیام کے لیے حصول اراضی اور بے گھر لوگوں کی بحالی و آبادکاری سے متعلق عوام دوست پالیسی کا اجرا کیا جائے۔

مجوزہ پالیسی تھر کے مقامی لوگوں کی مشاورت اور شراکت سے تشکیل دی جائے اور اس پالیسی میں مقامی لوگوں کے منفرد حالات زندگی اور ان کے منفرد حقوقِ اراضی کو مدِنظر رکھا جائے۔گزشتہ روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان فشر فوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ نے کہا کہ حکومت نے تھر کے لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کوئلہ کے منصوبوں کے ذریعے مقامی لوگوں کی زندگیوں میں ترقی اور خوشحالی لائے گی۔

(جاری ہے)

تاہم عملی طور پر کوئلہ کے اِن منصوبوں کے لیے حصولِ اراضی میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور نا انصافیوں نے ترقی و خوشحالی کے اس حسین خواب کو ایک ڈرائونے خوب میں بدل دیا ہے۔ کوئلہ کے نام پر تھر میں ہونے والی نام نہاد ترقی نے تھر کے مقامی لوگوں کو جبری بے دخلیوں، ذرائع معاش کا خاتمہ، بے بسی، غربت اور احساسِ محرومی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔

انہوں نے کہا کہ تھر میں کوئلہ کی منصوبوں کے لئے حصول اراضی اور بے گھر لوگوں کی بحالی و آبادکاری سے متعلق فیصلہ سازی میں مرکزیت، افسر شاہی کے صوابدیدی اختیارات اور عدم شفافیت کی وجہ سے مقامی لوگوں کا جینا دو بھر ہوگیا ہے۔معاوضوں کی ادائیگیوں میں ہونے والی غیر ضروری تاخیر پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے انہوں نہ کہا کہ موجودہ ناگفتہ بہہ حالات کا فائدہ صرف ان نجی کمپنیوں کو ہو رہا جو آئے روز ہزاروں ایکڑ زمین ہتھیا رہی ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ مجوزہ پالیسی کے اجرا تک تھر میں کسی بھی نئی حصول اراضی کو فی الفور بند جائے۔آلٹرنیٹو لا کولیکٹو کے نمائندے ایڈوکیٹ سید غضنفر نے کہا کہ لینڈ ایکوی زیشن ایکٹ1894 جیسے قوانین، جن کے تحت تھر میں حصولِ اراضی ہو رہی ہے، دراصل برطانوی نو آبادیاتی دور کے قوانین ہیں جن میں مقامی لوگوں اور مالکان کے حق ملکیت اور دیگر انسانی حقوق کا تحفظ نہ ہونے کے برابر ہے۔

انہوں نے کہا کہ اِن نو آبادیاتی قوانین میں حصول اراضی کے لیے نام نہاد ریاستی ضروریات کو شہریوں کے حق ملکیت پر غیر معمولی ترجیح دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تھر میں ہونے والی حصول اراضی لینڈ ایکوی زیشن ایکٹ 1894 کی ظالمانہ ایمرجنسی شقوں کے تحت عمل میں لائی جارہی ہے، جس کا مقصد قانونی عمل کو بالائے طاق رکھنا، شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا اور نجی کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کے علاوہ کچھ نہیں۔

تھر کے مقامی لوگوں کے نمائندہ جان محمد ہالیپوتو نے کہا کہ نام نہاد ترقی کے نام پر مقامی لوگوں کو ان کے آبائی گھروں، گاں، کھیتوں اور چراگاہوںسے ظالمانہ انداز میں بے دخل کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ تھر کی اکثریتی آبادی کے ذرائع معاش کا انحصار مال مویشی پالنے اور کھیتی باڑی پر ہے۔ کوئلہ کی کانوں اور بجلی گھروں کے لیے حاصل کی جانے والی زمینوں کے نتیجے میں تھر کے لوگ اپنی چراگاہوں اور کھیتوں سے محروم ہو رہے ہیں۔

تاہم حکومت حصول اراضی سے متاثرہ لوگوں کو متبادل ذرائع روزگار اور متبادل چراگاہیں فراہم نہیں کر رہی، جس کے نتیجہ میں بے روزگاری، غربت اور لاچاری میں اضافی ہو رہا ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مقامی لوگوں سے زبردستی زمین خریدنے کی بجائے، حکومت ان سے یہ زمین لیزپر لے جس کی سالانہ ادائیگی کی جائے۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں