سائٹ کے صنعتکاروں کا بجلی،گیس نرخوںمیں اضافے کی تجویز پر تحفظات کا اظہار

کرونا کے معیشت پر منفی اثرات کے پیش نظر بجلی،گیس نرخوں میں اضافہ نہ کیا جائے، صنعتکاروں کی وزیراعظم عمران خان سے اپیل

جمعہ 27 نومبر 2020 21:09

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 نومبر2020ء) کراچی کے سب سے بڑے صنعتی ایریا سائٹ کے صنعت کاروں نے بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کی تجاویز پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی ہے کہ وہ کروناکے وبائی مرض کی وجہ سے پیدا ہونے والے سنگین مالیاتی بحرانوں کے پیش نظر یوٹیلیٹی ٹیرف میں اضافہ پر غور نہ کیا جائے تاکہ صنعتی پیداواری سرگرمیاں بلا تعطل جاری رہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم سے متعلق پریس کانفرنس پر تبادلہ خیال کے لیے سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری میں ہونے ہونے ہنگامی اجلاس میں صنعتکاروں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان جس پالیسی کو اپنانا چاہتے ہیں اس کے بارے میں متعلقہ وزارت کی جانب سے بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ سرکلر ڈیبٹ کو صفر سطح پر لانے کے لیے محصولات میں اضافہ ناگزیر ہے۔

(جاری ہے)

اجلاس میںسائٹ ایسوسی ایشن کے سرپرست زبیر موتی والا، صدر عبدالہادی، سابق صدور جاوید بلوانی اور سلیم پاریکھ نے شرکت کی۔سائٹ کے صنعتکاروں نے وزیر اعظم سے اپیل کی کہ وہ تمام بریفنگ جو انہیں دی گئی ہے وہ گیس سرکلر ڈیبٹ کے سلسلے میں سرکلر ڈیبٹ کی وجہ نہیں بلکہ بدانتظامی، چوری، لائن لاسز اور دوسرے شعبوں کو کراس سبسڈی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

ہم خاص طور پر وزیر اعظم سے ان کے اپنے ویژن کی روشنی میں اپیل کر تے ہیں جس کا انہوں نے دوبارہ اظہار کیا اور صنعت کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کی ۔انہوں نے کئی بار اس بات کا اظہار کیا کہ 2020 زیادہ دولت کمانے والے سال ہوں گے۔وزیر اعظم نے متعدد بار تاجر برادری سے اپیل کی کہ وہ روزگار کے مواقع پیدا کریں اور برآمدات میں اضافہ کریں اور اس سلسلے میں ہر قسم کی مدد کی پیشکش بھی کی لیکن جب ہم پریس کانفرنس کو دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس کا انعقاد وزیر اعظم کی رضامندی سے ہوا ہے اور بظاہر اس پریس کانفرنس میں ٹیرف پر نظرثانی کے حل کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

اجلاس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو سمجھنا ہوگا کہ یہ سرکلر ڈیبٹ اس صنعت کی وجہ سے نہیں ہے کیونکہ انڈسٹری اپنے واجبات کا 98 فیصد سے زیادہ ادائیگی کرتی ہے اور صنعتی شعبے کے ذریعے یو ایف جی2 فیصد سے کم ہے دوسری طرف یو بی جی، دوسرے شعبوں کی چوری بہت زیادہ ہے اور گھریلو شعبے میں یہ 40 فیصد ہے۔سندھ اور بلوچستان کے دیہی علاقوں میں یہ60 فیصد سے زیادہ تک پہنچ گیا ہے۔

پرانی اور زنگ آلود لائنوں کی وجہ سے وہاں رساؤ اورچوری زیادہ ہے اگرچہ اوگرا 6 فیصد سے زیادہ کی اجازت نہیں دیتا اس کا صنعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ ایسے عناصر ہیں جو وزیراعظم کے ویژن کو حقیقت میں نہیں بدلناچاہتے۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیںکہ ہمارے حریف بین الاقوامی نرخوں پر توانائی حاصل کر رہے ہیں جو پچھلے 2 سالوں میں 50 فیصد سے بھی کم ہوچکا ہے اور اس طرح وہ ہم سے 50 فیصد سے بھی کم ٹیرف پر توانائی حاصل کررہے ہیں اور ہم خطے کے حریفوں کے ساتھ بین الاقوامی مارکیٹوں میں مقابلہ نہیں کرپارہے۔

ہم نے ایک فیصد بھی کم نہیں کیا بلکہ 3 ماہ قبل اوگرا نے مشورہ دیا تھا کہ مقامی گیس ٹیرف میں 6 فیصد کمی کی بجائے جبکہ اوگرا کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق قیمتوں میں 33 اور 66 روپے کا اضافہ کیا گیا۔سائٹ کے صنعتکار نے مزید بتایا کہ پاکستان کی مجموعی برآمدات میں 54فیصد کے حصہ دار شعبے کو تھوڑا بہت فائدہ دیا گی مگر بھی وہ واپس لے لیا گیا اور ٹیکسٹائل کے شعبے کو دی جانے والی 786 روپے کی شرح کو اب آر ایل این جی کو سسٹم میں ڈالنے کی بنیاد پر 930 روپے کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ وہ صنعتیں جنہیں برآمدی آڈرز کی تکمیل کرنی ہے ان کے پاس وزارت کے اس فیصلے کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں جسے واپس لیناچاہیے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ حکومت اس شعبے کو سزا دے رہی ہے جو بہترین پے ماسٹر ہے اور یہ سارا بوجھ انڈسٹری پر خاص طور پر ٹیکسٹائل کے شعبے پر ڈال دیا گیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم سرکلر ڈیبٹ کو ختم کرنے کی حکومت کی کوششوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم وزیر اعظم سے اپیل کرتے ہیں کہ اسے صنعتی شعبے سے نہیں بلکہ جن سے واجب الادا ہیں ان سے وصول کیا جائے بصورت دیگر تباہ کن صورتحال پیدا ہوگی کیونکہ ہمارے بہت سے حریفوں کو سرکلر ڈیبٹ کی اس قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں ہے۔

یہ واضح ہونا چاہیے کہ سرکلرڈیبٹ میں محصولات کے حساب کتاب میں بنیادی نقائص موجود ہیں اور وزیر اعظم کو یہ سمجھنا ہوگا کہ قیمتوں میں اضافے یا محصول میں کمی کھاد کی صنعت کو کم قیمت پر گیس کی فراہمی اور اس سے متعلقہ مسائل کی وجہ سے بھی ہے۔فوڈ سیکیورٹی کے لیے کم قیمت والی گیس کھاد کے شعبے کو دی جارہی ہے تاکہ کاشتکاروں کو کم قیمت پر یوریا مل سکے۔

کیا ہم یہ کراس سبسڈی کے ذرریعے کر سکتے ہیں یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے یہ بجٹ مختص کرنے کی طرح کرنا چاہیے۔صنعتکاروں کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کراس سبسڈی کو سرکلر ڈیبٹ کے طور پر دیکھتا ہے۔ کاشتکاروں کی مدد کے لیے مختلف پالیسیاں ہوسکتی ہیں۔ یہ سبسڈی انڈسٹری سے وصول کی جارہی ہے۔یہ انڈسٹری سے کراس سبسڈی کے ذریعے جمع کیا جاتا ہے۔

یہی معاملہ تجارتی صارفین میں ہے اور انڈسٹری کسی بھی دوسرے صارفین سے زیادہ یو ایف جی برداشت کر رہی ہے۔سائٹ کے صنعتکار نے تجویز پیش کی کہ کراس سبسڈی ختم ہونی چاہیے۔ حکومت کو کھاد کے شعبے کو سبسڈی کا بجٹ وفاقی بجٹ میں لگایا جانا چاہیے کیونکہ دیہی علاقوں میں ڈومیسٹک لائن لاسز ، چوری، گھریلو صارفین سے وصول کی جانی چاہیے تاکہ صوبائی حکومتیں اس سے نمٹ سکے۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں