پاکستان میں 70 فیصد خواتین صحافیوں کو 2020 میں صحافتی ذمہ داریوں اور آن لائن اظہار رائے کے باعث دھمکی یا حملے کا سامنا کرنا پڑا، رپورٹ

بدھ 20 جنوری 2021 23:51

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 جنوری2021ء) پاکستان میں 70 فیصد خواتین صحافیوں کو 2020 میں صحافتی ذمہ داریوں اور آن لائن اظہار رائے کے باعث دھمکی یا حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستانی خواتین صحافیوں کا کہنا ہے کہ صحافتی ذمہ داریوں اور اظہار رائے میں سب سے بڑی رکاوٹ آن لائن تشدد ہے، اگر سیلف سنسر شپ نہ کریں تو آن لائن تشدد کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی شائع کردہ نئی ریسرچ کے مطابق پاکستانی خواتین صحافیوں نے آن لائن تشدد کو اپنے صحافتی کام اور ذاتی اظہار میں سیلف سنسر شپ کی سب سی بڑی وجہ بتایا ہے۔اسلام آباد میں ایک آن لائن تقریب میں بدھ کو ریسرچ کا اجرا کیا گیا۔ ویمن جرنلسٹس اینڈ دی ڈبل بائینڈ کے عنوان سے شائع کردہ اس ریسرچ میں حصہ لینے والی ہر دس میں سے 9 خواتین صحافیوں کے مطابق اگر وہ اپنے خیالات کے آن لائن اظہار کو سنسر نہ کریں تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ انہیں آن لائن تشدد کا سامنا کرنا پڑے گا۔

(جاری ہے)

ریسرچ سروے میں شامل تقریبا 70 فیصد خواتین صحافی شرکا کو 2020 میں اپنے صحافتی کام اور آن لائن ذاتی رائے کے اظہار کی وجہ سے کسی نہ کسی قسم کی دھمکی یا حملے کا سامنا کرنا پڑا، 2018 میں یہ شرح 60 فیصد تھی۔میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی ریسرچ 2018 میں شائع کردہ ریسرچ کا تسلسل ہے۔ تحقیق کا سیاق و سباق 2020 میں پاکستانی خواتین صحافیوں کی جانب سے جاری دو مشترکہ بیانات سے منسلک ہے جن میں صحافیوں نے ان پر ہونیوالے آن لائن حملوں اور مبینہ طور پر ملوث مختلف سیاسی پارٹیوں کے کارکنان کی نشاندہی کی تھی۔

حالیہ ریسرچ میں خواتین صحافیوں نے سوشل میڈیا کے بطور سیاسی ہتھیار کے استعمال اور مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے صحافیوں کی کردار کشی کی منظم مہمات کے متعلق بات کی۔صحافیوں کے مطابق آن لائن تشدد میں ریپ اور جان سے مار دیئے جانے کی دھمکیاں بھی شامل ہیں جو کہ ناصرف ان کے جسمانی اور ذہنی تحفظ کیلئے خطرے کی بات ہیں بلکہ ان کے صحافتی کام کیلئے معلومات کے ذرائع تک پہنچنے میں بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ بنتی ہیں۔

ریسرچ کیلئے کئے جانیوالے سروے میں شامل تقریبا 80 فیصد خواتین صحافیوں کے مطابق پچھلے 3 سالوں میں سیلف سنسر شپ میں اضافہ ہوا ہے، خواتین صحافی یہ بھی سمجھتی ہیں کہ سیلف سنسر شپ کئے بغیر پاکستان میں صحافت ممکن نہیں۔ریسرچ کے مطابق وہ خواتین صحافی جنہوں نے آن لائن خطرات کی وجہ سے اپنے کام کو محدود کیا ان کی شرح 90 فیصد رہی، یہ شرح 2018 میں 87 فیصد تھی۔

خواتین صحافیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے مطابق وہ آن لائن اپنے ذاتی خیالات کے اظہار میں بہت احتیاط برتتی ہیں، 93 فیصد خواتین صحافیوں کے مطابق انہوں نے اپنے آن لائن ذاتی خیالات کے اظہار میں خود پر پابندیاں لگائیں، دو سال پہلے یہ شرح 83 فیصد تھی۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بہت ساری خواتین صحافی سیلف سنسر شپ کے اثر کو گھٹانے کیلئے معلومات دوسرے صحافیوں کے ساتھ شیئر کرتی ہیں تاکہ خبر کسی نہ کسی طریقے سے لوگوں تک ضرور پہنچے۔

ریسرچ میں شامل 66 فیصد خواتین صحافیوں کے مطابق ڈیجیٹل سیفٹی کے مختلف ذریعوں کے متعلق آگاہی ان کیلئے سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کے بہتر اظہار کا باعث بن سکتی ہے۔ریسرچ میں حکومت، سیاسی جماعتوں اور صحافتی یونینز کیلئے سفارشات بھی مرتب کی گئی ہیں۔ ریسرچ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ حکومت اور سیاسی جماعتیں صحافیوں کے تحفظ بشمول سائبر اسپیس میں تحفظ کو قانونی شکل دیں اور فوری طور پر ایسے حکومتی اور سیاسی کرداروں کیخلاف تفتیش کا آغاز کریں جن پر خواتین صحافیوں کیخلاف آن لائن ہراساں کرنے یا اس پر اکسانے کے الزامات ہیں۔

میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی ریسرچ نے تجویز دی ہے کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کو خواتین صحافیوں کی اسپیشل نیشنل ٹاسک فورس بنانی چاہئے اور یہ ٹاسک فورس خواتین صحافیوں کی جانب سے اگست اور ستمبر میں شائع کردہ مشترکہ بیانات اور مطالبات پر حکومت اور سیاسی جماعتوں سے فالو اپ کرے۔ریسرچ میں اس بات کی بھی سفارش کی گئی ہے کہ میڈیا ڈیولپمنٹ کیلئے کام کرنیوالی تنظیموں کو خواتین صحافیوں کیلئے ڈیجیٹل سیکیورٹی ٹریننگز کا اہتمام کرنا چاہئے اور ایک ایسا باہمی تعاون پر مبنی نیوز رپورٹنگ میکنزم بنانا چاہئے جو کہ سیلف سنسر شپ کے دبا سے بچنے میں مددگار ثابت ہو سکے۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں