اظہار رائے کی اآزادی ہونی چاہیے، ملک میں سینسر شپ نافذ نہ کی جائے ،مقررین

پاکستان کی داخلی سیکورٹی پر توجہ،افغانستان کے معاملے پر سوچ بچار کرکے پالیسی بنانی چاہیے افغانستان پر ہم نے بہت قربانیاں دیں قومی ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کی ضرورت ہے،خارجہ اور سیکورٹی امور پر پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے،شیری رحمن،غازی صلاح الدین،ڈاکٹر اسد سعید ودیگر کا خطاب

ہفتہ 18 ستمبر 2021 00:29

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 ستمبر2021ء) مقررین نے کہا کہ ملک میں سینسر شپ نافذ نہ کریں. ہر شخص کو اظہاد رائے کی آزادی ہونی چاہیے۔اپنی تاریخ کو چھپائیں نہیں۔ثقافت کی ترویج کرنی ہوگی۔مسائل کے حل کے لیے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ان خیالات کا اظہار پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنمائ سینیٹر شیری رحمن ،نامور ادیب غازی صلاح الدین، ماہر معاشیات ڈاکٹر اسد سعید اور دیگر نے جمعہ کو مقامی ہوٹل میں حارث خلیق اور عرفان احمد خان کی کتاب پاکستان عہد حاضر کی تقریب رہنمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

میڈیا سے گفتگومیں سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ شیری رحمن نے کہا کہ پاکستان کی داخلی سیکورٹی پر توجہ کی ضرورت ہے۔افغانستان کے معاملے پر سوچ بچار کرکے پالیسی بنانی چاہیے۔

(جاری ہے)

افغانستان پر ہم نے بہت قربانیاں دی ہیں قومی ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کی ضرورت ہے۔خارجہ اور سیکورٹی امور پر پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے۔تبدیلی سرکار پارلیمنٹ کو بلڈوز نہ کرے۔

نیوزی لینڈ کے ٹیم کے دورے کی منسوخی اچھا عمل نہیں ہے۔اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں ثقافت کے بارے مضمون اہم ہے۔ثقافت کے بارے میں ملک میں مختلف رائے ہے۔اس وقت دنیا میں ثقافتی جنگ ہے۔ہمیں اپنی ثقاقت کو صحیح طور پر اجاگر کرنا چاہیے۔کھلی فضا ثقافت کی جان ہے۔آزادی اظہار پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں ثقافت اور دیگر امور پر تاریخ بیان کی گئی ہے۔

ہمیں اپنی تاریخ سے سیکھنا چاہیے۔اس وقت معاشرہ تقسیم ہوچکا ہے۔ اس کو یکجا کرنا ہوگا۔بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کرنا چاہیے۔ان کی محرومیوں کا ازالہ کرنا ہوگا۔نئی نسل کا رشتہ کتابوں سے نہیں موبائل سے ہے۔ہمیں تنقید کو برداشت کرنا چاہیے۔مہذب معاشرے میں ثقافت کو اہم مقام حاصل ہے۔ملکی ثقافت کو صحیح مقام پر لانے کی ضرورت ہے۔خطے کی خراب صورتحال کے ذمہ دار ہم نہیں مودی سرکار ہے۔

ہمیں اپنی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے متحرک ہونا چاہیے۔آج کل کے سوشل میڈیا کے دور میں ثقافت کو بھی کھلی فضا کی ضرورت ہوتی ہے۔سینسر شپ نافذ نہ کریں لوگوں کو قید نہ کریں۔ان کی آواز نہ دبائیں۔سیاست دانوں میڈیا۔ثقافت سمیت سب کو آزادی ہونی چاہیے۔ ان سب کواظہار رائے کی آزادی ہونی چاہیے۔ہمیں بند گلی میں نہ بھیجیں۔جو بچا کھچا ہے اس کو آزاد فضا میں سانس لینے دیں۔

سینئر صحافی غازی صلاح الدین نے کہا کہ اس کتاب میں معاشی امور پر بھی مضمون ہونا چاہیے۔اس کتاب میں ملک کے موجودہ حالات کی عکاسی کی گئی ہے۔ہمیں اپنے ملک کی تصویر خود بنانی چاہیے۔پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے۔ملک کے مسائل ہمارے سامنے ہیں۔اس ملک کا بٍڑا مسئلہ سیاسی یا معاشی نہیں ہے۔بلکہ ہم اپنے مسائل پر سوچتے نہیں ہیں۔

ہم اپنی تاریخ سے چھپتے ہیں۔ہمیں اپنے حافظے کو زندہ رکھنا ہوگا۔ ہم اپنے تاریخ کے اہم لحمات کو ضائع کردیاہے۔سانحہ بلدیہ فیکٹری کی بھی ایک تاریخ ہے جس کو ہم بھول گئے ہیں۔اس سانحہ کے بعد ہم نے سبق حاصل نہیں کیا۔ہمیں سانحات سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں بیرون ملک میں مقیم پاکستانیوں کے حالات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

ان کے مسائل کے حل کی ضرورت ہے۔میڈیا سمیت معاشرے کے ہر طبقہ کو اپنے رائے کے اظہار کی آزادی ہونی چاہیے۔میڈیا کی آزادی کے لیے سب کو مشترکہ جدوجہد کرنی ہوگی۔ماہر معاشیات ڈاکٹر اسد سعید نے کہا کہ بیرون ملک میں مقیم پاکستانی ملک کا اثاثہ ہیں۔ان کے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے پارلیمانی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس کتاب بیرون ملک میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔ملک کے معاشی مسائل کے حل کے لیے جامع حکمت عملی ضرورت ہے۔کتاب کے مصنفین حارث خلیق اور عرفان احمدخان نے کہا کہ اس کتاب میں سات مضامین ہیں۔جو اپنے شعبوں کے ماہرین نے تحریر کیے ہیں۔اس کتاب میں سماج، ثقافت، شناخت اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر مضامین لکھے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی اصل تاریخ سے لوگوں کوآگاہ کرنا ہوگا۔وہ قومیں کھبی ترقی نہیں کرتی جن کی اصل تاریخ سے وہ آگاہ نہیں ہوتیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ثقافت، تعلیم سیاست اور دیگر مسائل کی درست نشاندہی کے لیے ڈائیلاگ کی ضرورت ہی

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں