انڈونیشیا میں بحری جہاز پر پھنسے 46 پاکستانی وطن واپس پہنچ گئے

لائف اسٹاک بحری جہازوں کو کمپنی کے مالکان نے گزشتہ تین ماہ سے انڈونیشیا کے ساحل پر بے یار و مدد گار چھوڑ دیا تھا

جمعرات 9 دسمبر 2021 00:00

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 دسمبر2021ء) انڈونیشیا کی ساحلی بندرگاہ پر گزشتہ تین ماہ سے غیر ملکی کمپنی کے دو بحری جہازوں پر پھنسے 46 سے زائد پاکستانیوں اور غیر ملکی سی مینز کو بحفاظت پاکستان پہنچادیا گیا۔کورونا وائرس کے سبب خراب معاشی صورت حال اور کاروبار میں نقصان کے سبب ایک غیر ملکی کمپنی کے دو لائف اسٹاک بحری جہازوں کو کمپنی کے مالکان نے گزشتہ تین ماہ سے انڈونیشیا کے ساحل پر بے یار و مدد گار چھوڑ دیا تھا، جس میں بڑی تعداد میں پاکستانی و غیر ملکی سی مینز سوار تھے۔

برطانوی اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ لائف کیٹل بحری جہاز بارکلے پرل اور ڈائمنٹینا نامی یہ جہاز گزشتہ تین ماہ سے انڈونیشیا کی بندر گاہ پر بے یار و مددگار موجود تھے جن کے مالکان کا تعلق سنگاپور اور آسٹریلیا سے ہے ،46 افراد پر مشتمل عملے کو بھی کئی ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں تھیں جن کی مالیت 5 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ تھی۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق اس موقع پر سنگاپور میں معروف شپنگ کمپنی گلوبل ریڈیئنس کے پاکستانی نڑاد سربراہ عبدالطیف صدیقی کی درخواست پر سنگاپور میں پاکستانی سفیر محترمہ رخسانہ افضال اور انڈونیشیا میں پاکستانی ہائی کمشنر محمد حسن نے ان پاکستانیوں کو اپنے ملک بھجوانے میں انڈونیشیا کی حکومت کے ذریعے اہم کردار ادا کیا جبکہ گلوبل ریڈیئنس کے سربراہ عبدالطیف صدیقی نے آسٹریلیا اور سنگاپور میں قانونی طریقے سے جہازوں کے مالکان کے خلاف قانونی کارروارئی کا آغاز کرتے ہوئے انہیں مجبور کیا کہ مالکان پاکستانی سی مینز سمیت تمام اہلکاروں کے تنخواہوں، سفر و رہائش سمیت تمام واجبات ادا کریں جس کے بعد جہازوں کے سنگاپوری اور آسٹریلوی مالکان نے جہاز میں خدمات انجام دینے والے پاکستانی و غیر ملکیوں سمیت تمام افراد کے 5 لاکھ ڈالر سے زائد کے واجبات ادا کیے اور یہ تمام پاکستانی قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد اب پاکستان پہنچ چکے ہیں۔

گارجین کی رپورٹ کے مطابق جہازوں میں پھنسے پاکستانیوں نے سنگاپور میں پاکستانی سفیر محترمہ رخسانہ افضال، انڈونیشیا میں پاکستانی ہائی کمشنر محمد حسن اور گلوبل ریڈیئنس کے سربراہ عبد الطیف صدیقی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اگر سفارتی سطح پر اور قانونی سطح پر ان کی مدد نہ کی جاتی تو معلوم نہیں کہ انہیں مزید کتنا عرصہ سمندر میں گزارنا پڑتا۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں