ملک میں منشیات فروشوں کا نیٹ ورک مضبوط ہورہا ہے،شوریٰ ہمدرد

جمعرات 27 جنوری 2022 22:44

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 جنوری2022ء) شوریٰ ہمدرد کا آن لائن اجلاس ’منشیات کا بڑھتا رجحان ، ذمہ دار کون ‘ کے موضوع پر گزشتہ روز اسپیکر شوریٰ ہمدرد کراچی جسٹس (ر) حاذق الخیری کی زیر صدارت منعقد ہوا ، جس میں اراکین شوریٰ نے ملک میں منشیات کے بڑھتے استعمال پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ نشہ آور اشیا ء کی دستیابی کو سختی سے روکے۔

اجلاس میں ہمدرد فائونڈیشن پاکستان کی صدر سعدیہ راشد نے بھی بذریعہ ’زوم‘ شرکت فرمائی۔ابتدائی کلمات میں جسٹس (ر) حاذق الخیری نے کہا کہ یہ موضوع ملکی سلامتی کے لیے بہت اہم ہے۔ خصوصاً نوجوان طبقے میں نشہ آور اشیاء کا بڑھتا استعمال ایک لمحہ فکریہ ہیجس پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

لاکھوں طلبہ اس خوفناک لت کا شکار ہوگئے ہیں ، ملک میں منشیات فروشوں کا نیٹ ورک مضبوط ہورہا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کے سدباب میں ارباب اختیار کے عملی اقدامات کاواضع فقدان نظر آرہا ہے۔

مزید براں ملک میں ایسے اسپتالوں کی بھی کمی ہے جہاں اس لت کا علاج کیا جاتا ہے۔ اگر چند اسپتال ہیں بھی تو وہ بہت مہنگے ہیں۔ظفر اقبال نے کہاکہ ریاست ، اساتذہ اور والدین سمیت سب کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو نشے کے بٴْرے اثرات سے آگاہی فراہم کریں۔ اسکول کالجز میں ایسے لیکچر منعقد کیے جائیں جن کے ذریعے نئی نسل کی ذہن سازی کی جائے۔ منشیات فروشی میں ہر طبقہ اور شعبہ ہائے زندگی سے لوگ جڑے ہوئے ہیں جو بچوں کو بھی استعمال کرتے ہیں۔

اس پورے نیٹ ورک کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ڈاکٹر رضوانہ انصاری نے کہاکہ منشیات کھلے عام بکتی ہے، ایسا ممکن ہی نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروںکے چند افسران اس مکروہ کام میں ملوث نہ ہوں۔ سماجی رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ بہت سی نشہ آور اشیاء جیسے پان چھالیہ گٹکا شیشہ کے استعمال کو بٴْرا ہی نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ ان کی وجہ سے حالیہ کچھ عرصہ میں ملک میں منہ اور جبڑے کے سرطان کے مریضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔

طلبہ میں نشہ آور اشیاء کا استعمال کی بڑی وجہ ذہنی دبائو اور ڈپریشن ہے۔تعلیمی اداروں میں باقاعدگی سے ایسے لیکچرز کا اہتمام کرنا ہوگا جس میں بچوں کو نشہ آور اشیاء کے استعمال سے پیدا ہونے والے منفی جسمانی و ذہنی اثرات واضع بیان کیے جائیں۔ڈاکٹر تنویر خالد نے کہا کہ متوسط اور کم آمدن والے گھرانوں میں نشہ معیوب ہی نہیں سمجھا جاتا۔

نشہ کرنے والے طلبہ کا ابتدائی مرحلے میں علاج ممکن ہے۔ اس لیے تعلیمی اداروں میںطلبہ کے ہر چھ ماہ بعد میڈیکل ٹیسٹ ہونے چاہئیںتاکہ پتا چل سکے کہ آیا وہ کوئی نشہ کررہے ہیں یا نہیں۔ قانون نافذکرنے والے اداروں کے اہلکاروں سے بھی باز پرس کرنی چاہیے کہ کیوں اٴْن کے علاقوںمیں یہ نشہ آور اشیاء کھلم کھلا فروخت ہورہی ہیں۔ کھیل سمیت دیگر صحت مندانہ سرگرمیوں کو اسکول کالج اور یونی ورسٹی کے کلینڈر میں شامل کرنا چاہییتاکہ نوجوانوں کی صحت بہتر ہو۔

میڈیا پر بھی بیت بازی ، تقاریر سمیت مختلف سرگرمیوں پر مبنی مقابلے ہونے چاہئیں۔کرنل (ر) مختار احمد بٹ نے کہا کہ نشہ آور اشیاء کی دستیابی ہمارے معاشرے کی اصل ناکامی ہے۔ جب تک دستیابی کو سختی سے روکا نہیں جائے گا، لوگ اس جانب راغب ہوتے رہیں گے۔ والدین اور اساتذہ کو طلبہ پر نظر رکھنی چاہیے۔اس ضمن میں والدین کے لیے میڈیا پر آگاہی پروگرام شروع کرنے ہونگے۔

جو لوگ اس گھنائونیکاروبار میں ملوث ہیں اٴْنہیں قرار واقعی سزا دینے سے ہی معاشرے میں نشہ آور اشیاء کی فروخت کی حوصلہ شکنی ہوگی۔انور عزیز جکارتہ والا نے کہا کہ نشہ کی ترغیب ایسی اشیاء کے استعمال سے ملتی ہے جن کا استعمال معاشرے میں کوئی برا فعل نہیں سمجھا جاتاجیسے سگریٹ ، پان اور چھالیہ وغیرہ۔ ان اشیائ کے استعمال کی بھی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔

منشیات کے کاروبار سے جڑے لوگ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ بدقسمتی سے معاشرے میں نشے کے لیے ایک قسم کی قبولیت پیدا ہوگئی ہے۔ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں تو نشہ بہت عام ہوگیا ہے۔ البتہ اب خوشحال گھرانوں کے بچے بھی اس برائی کا شکار ہورہے ہیں۔ منشیات کے خلاف سخت کارروائی کے لیے الگ وزارت قائم کرنی ہوگی۔انجینئر انوار صدیقی نے کہا کہ انسداد منشیات کے لیے تین سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

انفرادی ، خاندانی اور سماجی و قومی سطح پر اقدامات سے ہی اس خطرناک رجحان کا علاج ممکن ہے۔ اسکولوں سے بچوں کو ا?گاہی دینے کے ساتھ والدین اور اساتذہ کو بچوں کی عمومی صحت بہتر کرنی ہوگی۔ صحت مند جسم ہی توانا ذہن اور بلند سوچ پیدا کرتا ہے۔ ہر اسکول کو پابند کیا جائے کہ وہ ایک ماہر نفسیات بھی رکھے تاکہ بچوں کی ذہنی صحت کا ہر ماہ جائزہ لیا جاسکے۔

بڑے اسکول اپنی بدنامی کے ڈر سے ایسے کیس کو عوام کے سامنے نہیں لاتے۔ والدین اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں کیونکہ فی الوقت بچے غیر ضروری مسابقت اور سماجی ناہمواری کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہورہے ہیں۔کموڈور (ر) سدید انور ملک نے کہا کہ یہ قومی مسئلہ ہے، اسے قومی سطح پر اٴْٹھانا ہوگا۔اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کی ایماء پر یہ گھنائونا کاروبار جاری ہے۔

منشیات کی دستیابی کو سرے سے ختم کرنا ہوگا اور اس کاروبار میں شامل تمام لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہوگی تاکہ دوسرے لوگ اور افسران عبرت حاصل کریں۔البتہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ محض سزائوں کے اطلاق سے یہ کام نہیں رٴْکے گا، کیونکہ اس میں منافع کی شرح بہت زیادہ ہے، جو اس مکروہ کام کو پرکشش بناتی ہے۔ منشیات کے خلاف ذہن سازی بھی کرنے کی ضرورت ہے۔

مسرت اکرم نے کہا کہ اسکولوں میں اس بیماری کا عام ہوجانا ہماری سماجی ناکامی ہے۔ اب یہ فرد واحد کا کام نہیں رہا۔ اب حکومتی سطح پر اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔اجلاس کے اختتام پر سعدیہ راشد نے تمام اراکین کی شرکت پر اٴْن کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ نوجوان نسل میں منشیات کا استعمال بڑھنا ایک خطرناک امر ہے۔جس کے بعد جسٹس (ر) حاذق الخیری نے اجلاس کا باضابطہ اختتام کیا

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں