ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی صحت کے شعبے میں تحقیق کے لئے بڑی رکاوٹ قرار

پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کے لاکھوں مریض جینوٹائپ تھری سے متاثر ہیں جس کا علاج کافی مشکل ہے لیکن بدقسمتی سے اس جینو ٹائپ پر پاکستان میں کوئی سیرحاصل ریسرچ موجود نہیں ، ماہرین صحت

پیر 16 مئی 2022 21:25

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 مئی2022ء) پاکستان میں صحت کے شعبے میں تحقیق کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ)ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آئی ہے کیوں کہ اس کے پاس ایسے تعلیم یافتہ افراد کی شدید کمی ہے جوکہ کلینکل ٹرائلز اور تحقیقی منصوبوں کی بروقت جانچ پڑتال کرکے ان کی منظوری دے سکیں۔ان خیالات کا اظہار ماہرین صحت اور ریسرچرز نے پیر کے روز کراچی میں ہونے والی ریسرچ ایکسیلینس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ریسرچ ایکسیلینس کانفرنس کا انعقاد فارمیوو ریسرچ فورم کے تحت کیا گیا تھا اور اس موقع پر ملک بھر سے 19 ڈاکٹروں اور ماہرین صحت کو صحت کے مختلف شعبوں میں تحقیق کے لیے تین لاکھ روپے فی کس گرانٹ جاری کی گئی۔کانفرنس سے آغا خان یونیورسٹی کے کلینکل ٹرائلز یونٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر سعید حامد، انڈس میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور معروف کارڈیالوجسٹ پروفیسر فیروز میمن، آغا خان یونیورسٹی کے پروفیسر انور صدیقی، پروفیسر بدر فیاض زبیری، سید جمشید احمد، ہارون قاسم، شوکت علی جاوید، ڈاکٹر مسعود جاوید اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

(جاری ہے)

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آغا خان یونیورسٹی کے کلینیکل ٹرائلز یونٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر سعید حامد کا کہنا تھا کہ پاکستانی افراد یورپ کے افراد سے نسلی اور جینیاتی طور پر مختلف ہیں اس لیے پاکستانی افراد میں دوائیں مختلف طریقے سے اثر کرتی ہیں، پاکستان میں دواں پر مقامی ریسرچ اور کلینکل ٹرائلز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی بیماریوں کا مقامی حل تلاش کیا جا سکے۔

انہوں نے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کے لاکھوں مریض جینوٹائپ تھری سے متاثر ہیں جس کا علاج کافی مشکل ہے لیکن بدقسمتی سے اس جینو ٹائپ پر پاکستان میں کوئی سیرحاصل ریسرچ موجود نہیں جس کی وجہ سے ایسے مریضوں کے علاج میں کافی مشکل درپیش ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں یورپ میں بنی ہوئی کوئی بھی دوا اس وقت تک منظور نہیں کی جاتی جب تک اس دوا پر مقامی طور پر ریسرچ نہ کی جائے، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان میں مقامی تحقیق اور ریسرچ میں ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آئی ہے جہاں پر قابل اور تربیت یافتہ افراد کی شدید قلت ہے جو کہ ریسرچ کی اہمیت کو جانتے ہوئے ان منصوبوں کی جلد از جلد منظوری دے سکیں۔

فارمیوو ریسرچ فورم کے روح رواں اور پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنسز کے ایڈیٹر شوکت علی جاوید کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صحت کے شعبے میں انتہائی کم تحقیق کی جا رہی ہے، فارمیو ریسرچ فورم حال ہی میں قائم کیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد نوجوان ڈاکٹروں طلبا اور تحقیق کاروں کو صحت کے شعبے میں تحقیق کے لیے مالی اور تکنیکی معاونت فراہم کرنا ہے۔

مقامی دوا ساز کمپنی فارمیوو کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سید جمشید احمد کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں دوا ساز ادارے طبی تحقیق کے لیے وسائل مہیا کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کرونا کی وبا کے دوران محض چھ مہینے کے اندر اس بیماری کی ویکسین بنا لی گئی جس کے نتیجے میں کرہ ارض پر کروڑوں انسانی جان بچائی جا سکیں۔سید جمشید احمد کا کہنا تھا کہ ریسرچ گرانٹس کے لئے ملک بھر سے 46 نوجوان ڈاکٹروں اور تحقیق کاروں نے درخواستیں دی تھیں جن میں سے 19 کو پانچ کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہر ریسرچر کو تین لاکھ روپے تک جاری کیے گئے ہیں اور ان کو اٹھارہ مہینے کے اندر اپنا ریسرچ پروجیکٹ مکمل کرکے اس کی رپورٹ جمع کرانی ہوگی۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں