زینب قتل کیس میں کب کیا ہوا

کمسن بچی کے اغواسے قتل اور قاتل کی گرفتاری تک کی اندوہناک داستان

Syed Fakhir Abbas سید فاخر عباس منگل 23 جنوری 2018 23:34

زینب قتل کیس میں کب کیا ہوا
قصور(اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار- 23جنوری2018ء ):زینب قتل کیس کب کیا ہوا ،کمسن بچی کے اغواسے قتل تک ایک ظلم کی داستان ہے اور پھر 14دن تک قاتل کیسے قانو ن کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا یہ ایک الگ کہانی ہے۔ہمارا معاشرہ اتنا بے حس کیوں ہو چکا ہے ،اتنی ہوس پرستی ہم میں کیسے آ گئی۔قاتل کیسے ڈھٹائی سے مظلوم بچی کے جنازے میں بھی شریک ہوا اور پھر اسکے قتل کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

یہ سب ایک اندوہناک داستان ہے جو 4جنوری سے شروع ہوتی ہے۔جب ننھی زینب نجانے کس آس پرقاتل کے اشاروں پر بھاگتی دوڑتی اسکے پیچھے جا رہی ہوتی ہے۔4جنوری کو ہی زینب لاپتہ ہو جاتی ہے۔جس کے بعد گھر والے زینب کو تلاش کرتے رہے مگر بے سود ۔

(جاری ہے)

زینب کو تلاش کرنے کے لیے پولیس کو اطلاع کی گئی تو پولیس نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئیں بائیں شائیں سے کام لیا۔

زینب کے والدین جو کہ عمرے کے سلسلے میں سعودی عرب تھے انکو بھی زینب کی گمشدگی اطلاع دے دی گئی۔والدین جب حرم میں تڑپ تڑپ کر بیٹی کے لیے دعائیں کر رہے ہوں گے اسی وقت کمسن زینب اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے باعث جو آہ و بکا بلند کر رہی ہو گی اس نے عرش ہلا دیا ہوگا۔سب کوششیں کی گئیں مگر زینب بازیاب نہ ہوئی۔آخر کار9جنوری کو زینب مل گئی لیکن بے حس و بے حرکت ۔

شائد اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر چیخ چیخ کر تھک چکی تھی ۔لاش برآمد ہوئی تو زینب کے گھر قیامت آ گئی ۔10جنوری کو جم غفیر نے مظلومہ بچی کا جنازہ پڑھا اور انہی لوگوں میں کہیں کھڑا زینب کا قاتل بھی جنازہ پڑھتا رہا اور نہایت ڈھٹائی سے زینب کے لواحقین کو تسلیاں دیتا رہا۔10جنوری کو اسی دن زینب کے قتل کے خلاف قصور میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔10جنوری کو اس وقت کے ڈی پی او قصور ذولفقار احمد کو عہدے سے ہٹا دیا گیا اور واقعے کی تحقیق کے لیے جے آئی ٹی بنا دی گئی۔

دن پر دن گزرتے رہے مگر قاتل غائب رہا۔14جنوری کو بہت سے علاقہ مکینوں کے ڈی این اے کئیے گئے اور انہی میں کہیں زینب کیس کے مرکزی ملزم عمران کا ڈی این اے بھی کیا گیا ۔اسی دوران وزیر اعلیٰ نے بھی آئی جی پولیس اور ڈی جی فرانزک لیب کو قاتل کی گرفتاری تک قصور رہنے کی ہدایت کی مگر جلد ہی آئی جی پولیس وزیر اعلیٰ کے حکم کو پاؤں میں روند کر لاہور واپس آگئے۔

ہر روز کسی نہ کسی کی گرفتاری کی خبر آتی مگر وہ قاتل نہ نکلتا ۔آخر کار 20جنوری کو ہونے والے ڈی این اے جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد سے میچ کر گیاجس کے بعد مشتبہ شخص کا پولی گرافک ٹیسٹ کیا گیا جس کے بعد ملزم کو چھوڑ دیا گیا۔تمام شواہد مکمل ہو جانے پر ملزم کی شناخت عمران علی کے نام سے ہو گئی جو زینب کا ہمسایہ تھا اور ملزم کو14روز بعد پاکپتن سے گرفتار کر لیا گیا۔ملزم کو گرفتار کر کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس لاہور لے جایا گیا جہاں وزیر اعلیٰ نے تالیوں ،مبارکبادوں اور قہقہوں کی گونج میں قاتل کی گرفتاری کا اعلان کیا اور مقتولہ زینب کے والد حسرت کی تصویر بنے اس ساری کاروائی کو دیکھتے رہے شائد وہ سمجھ نہیں پائے کہ آخر اس جشن کا مقصد کیا ہے۔

قصور میں شائع ہونے والی مزید خبریں