ننھی زینب کو جنسی تشدد کے بعدقتل کرنے کا واقعہ رواں سال جنوری میں پیش آیا تھا

لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملنے کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ،قصور میں پر تشدد مظاہروں میں پولیس فائرنگ سے دو افراد جا ں بحق بھی ہوئے پولیس نے 23جنوری کو ملزم عمران کی گرفتاری کا دعوی کیا،17 فروری کو انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے سزائے موت سنائی

بدھ 17 اکتوبر 2018 14:21

ننھی زینب کو جنسی تشدد کے بعدقتل کرنے کا واقعہ رواں سال جنوری میں پیش آیا تھا
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 اکتوبر2018ء) قصور میں ننھی زینب کو جنسی تشدد کے بعدقتل کرنے کا واقعہ رواں سال جنوری میں پیش آیا تھا ۔ جنوری میں زینب کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے ہوئے تھے تو 4جنوری کو زینب قریب میں ہی اپنی خالہ کے گھر پڑھنے کے لیے گئی اور غائب ہو گئی۔زینب کے چچا نے اگلے ہی دن اس واقعے کے بعد پولیس کو اطلاع کر دی لیکن کوئی سراغ نہیں مل سکا اور 9 جنوری کو لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی جس کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے دوافراد جاں بحق بھی ہوئے۔

بعدازاں چیف جسٹس پاکستان نے واقعے کا از خود نوٹس لیا اور پولیس کو جلد از جلد قاتل کی گرفتاری کا حکم دیا۔

(جاری ہے)

23 جنوری کو پولیس نے زیادتی اور قتل میں ملوث ملزم عمران کی گرفتاری کا دعوی کیا۔17 فروری کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے قصور کی 7 سالہ زینب سے زیادتی و قتل کے مجرم عمران کو 4 بار سزائے موت سنادی تھی جسے ملکی تاریخ کا تیز ترین ٹرائل قرار دیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے مجرم عمران کو کل 6 الزامات کے تحت سزائیں سنائی تھیں۔مجرم عمران کو ننھی زینب کے اغواء ، زیادتی اور قتل کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت 4،4 مرتبہ سزائے موت سنائی گئی۔دوسری جانب عمران کو زینب سے بدفعلی پر عمرقید اور 10 لاکھ روپے جرمانے جبکہ لاش کو گندگی کے ڈھیر پر پھینکنے پر7سال قید اور 10 لاکھ جرمانیکی سزا بھی سنائی گئی تھی۔

مجرم دیگر کمسن بچیوں سے پیش آنے والے واقعات میں بھی ملوث پایا گیا اور اسے زینب سمیت 8 بچیوں تہمینہ، ایمان فاطمہ، عاصمہ، عائشہ آصف، لائبہ اور نور فاطمہ کے قتل کیس میں مجموعی طور پر 21 مرتبہ سزائے موت کا حکم سنائی گئی تھی ۔مجرم نے سزا کے خلاف پہلے لاہور ہائی کورٹ اپیل دائر کی جو مسترد ہوئی اور بعد میں سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی جسے جون میں سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے خارج کر دیا اورصدر مملکت کی جانب سے بھی رحم کی اپیل مسترد ہونے کے بعد 12 اکتوبر کو انسداد دہشت گردی عدالت نے مجرم کے ڈیتھ وارنٹ جاری کئے تھے ۔

قصور میں شائع ہونے والی مزید خبریں