ایک دھماکے کی آواز آئی اور جس بس میں چینی اہلکار موجود تھے سڑک پر دکھائی نہیں دے رہی تھی وہ ہوا میں پلٹا کھا کر کئی فٹ نیچے کھائی میں گری

واقعے کے بعد قریب میں ایک نامعلوم شخص کی کھوپڑی پڑی دیکھی گئی، معلوم نہیں وہ کس کی کھوپڑی تھی کیونکہ دیگر مرنے اور زخمی ہونے والوں کا تو سب کو معلوم تھا۔ داسو واقعہ کے عینی شاہد نے جائے حادثہ کے مناظر کی تفصیل بتا دی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین ہفتہ 17 جولائی 2021 16:27

ایک دھماکے کی آواز آئی اور جس بس میں چینی اہلکار موجود تھے سڑک پر دکھائی نہیں دے رہی تھی وہ ہوا میں پلٹا کھا کر کئی فٹ نیچے کھائی میں گری
کوہستان (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 17 جولائی 2021ء) : تین روز قبل داسوہائیڈروپاورپراجیکٹ سائٹ پر افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں اپرکوہستان میں داسو ڈیم کے ملازمین کو لانے لے جانے والی بس حادثے کا شکار ہوگئی جس کے نتیجے میں 10 افراد جاں بحق ہوگئے، جب کہ 39 افراد زخمی ہوگئے۔ حادثے میں جن 10 افراد کی موت کی تصدیق ہوئی اُن میں چینی شہری بھی شامل تھے۔

واقعہ کے حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پراجیکٹ کے ایک مزدور نے بتایا کہ بدھ کو ہمارا قافلہ صبح سات بجے کے بعد اپنے معمول کے مطابق چائنہ غضوبہ کیمپ، برسین سے باہر نکلا۔ ابھی پانچ منٹ ہی گزرے تھے، یوں کہیے کہ ہم نے تقریباً 500 میٹر کا فاصلہ طے کیا ہوگا تو ایک زور دار دھماکے کی آواز سنائی دی اور ہر جانب مٹی اور دھوئیں کے بادل اٹھنے لگے اور پھر اندھیرا سا چھا گیا۔

(جاری ہے)

مزدور نے بتایا کہ ہوا بہت تیز تھی اس لیے پہلے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جس بس میں چینی اہلکار موجود تھے سڑک پر دکھائی نہیں دے رہی تھی وہ ہوا میں پلٹا کھا کر کئی فٹ نیچے کھائی میں گری جو دریائے اباسین کا کنارہ ہے۔ پھر ہم اپنی گاڑیوں سے نیچے اترے۔ اور دریا کے کنارے زخمیوں کی مدد کے لیے دوڑے۔ ایک اور مزدور نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پراجیکٹ پر کام کے لیے جانے والے ہمارے قافلے میں دیگر گاڑیوں کے علاوہ رینجرز کی گاڑیاں بھی ہوتی ہیں۔

اس روز بھی ایسا ہی تھا ہم برسین کیمپ، جو مرکزی شہر کومیلہ/ داسو سے سات کلومیٹر دور ہے، پر شاہراہ قراقرم کے ایک موڑ پر تھے جب چلتے چلتے ہم سے آگے جانے والی ایک گاڑی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا۔ کیمپ سے ڈیم کی سائٹ پر پہنچنے کے لیے ہمیں روزانہ گاڑی میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگتا تھا۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایک شفٹ میں چینی ورکرز بشمول انجینئیرز اور عملے سمیت تقریباً ڈیڑھ سو سے دو سو مزدور ہوتے ہیں، چینیوں کے لیے الگ گاڑیاں ہوتی ہیں جن کے اندر بھی سکیورٹی اہلکار ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔

اور صبح و شام کی دونوں شفٹوں میں یہی معمول ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ قدرے خراب اور دشوار گزار راستہ ہے کیونکہ متبادل شاہراہ قراقرم کے لیے اس علاقہ میں بائی پاس تعمیر ہو رہے ہیں۔ موجودہ سڑک کی چوڑائی 22 فٹ ہے۔ اس لیے گاڑی 20 سے 25 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہی چلتی ہے اور دو گاڑیوں کے درمیان ہمیں بہت فاصلہ رکھنا پڑتا ہے۔ بدھ کی صبح جب ہم شاہراہ قراقرم کے ایک موڑ پر پہنچے تو یہ واقعہ ہو گیا۔

سب لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا کوئی زخمی تھا۔ نیچے دریا کے پاس موجود بس کے گرد زخمی چینی بکھرے ہوئے تھے۔ اوپر موجود چینیوں کو رینجرز اہلکاروں نے نیچے نہیں جانے دیا۔ اس لیے ہم مقامی لوگ نیچے گئے ریسکیو والے بھی پہنچ آئے تو ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ہم زخمیوں کو نیچے سے اوپر لے کر آئے اور پھر دیہی مرکز صحت، آر ایچ سی داسو پہنچایا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ چونکہ پاکستانی کیمپ اوچھار اور چین کا کیمپ برسین دونوں جائے وقوعہ سے زیادہ دور نہیں تھے اس لیے وہاں سے بھی جلد ہی عملہ یہاں آ گیا۔ بی بی سی سے گفتگو میں اس پراجیکٹ میں شامل مقامی مزدور نے بتایا کہ حادثے والی گاڑی تو مکمل طور پر تباہ ہوئی تاہم اس کے آگے اور پیچھے جانے والی گاڑیوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے اور ایک گاڑی میں موجود ایک مقامی مزدور ہلاک بھی ہوا اور دو زخمی ہوئے۔

جس گاڑی میں یہ حادثہ ہوا اس کا ڈرائیور اور آگے موجود دو سکیورٹی اہلکار بری طرح زخمی ہو کر ہلاک ہو گئے جبکہ تین چینی بھی جائے وقوعہ پر ہلاک ہو چکے تھے۔ واقعہ میں نو چینیوں سمیت کل 13 ہلاکتیں ہوئی ہیں اور 27 افراد زخمی ہوئے۔ آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچھ لاشیں تو اتنی متاثر تھیں کہ پتہ بھی نہیں چلتا تھا کہ کس کی لاش کون سی ہے۔

ہ ہمیں نہیں معلوم یہ دھماکہ کیسے ہوا لیکن واقعے کے بعد قریب میں ایک نامعلوم شخص کی کھوپڑی پڑی دیکھی گئی تھی۔ معلوم نہیں وہ کس کی کھوپڑی تھی کیونکہ دیگر مرنے اور زخمی ہونے والوں کا تو سب کو معلوم تھا لیکن وہ کس کی کھوپڑی تھی یہ معلوم نہیں ہے۔ ہاں یہ تو معلوم ہے کہ وہ کوئی مقامی شخص بھی نہیں تھا کیونکہ کوہستان کا یہ علاقہ داسو تو اتنی چھوٹی جگہ ہے کہ اگر کسی گھر کا کوئی اور شخص بھی مرتا تو ہمیں کم ازکم اب تک اطلاع مل چکی ہوتی۔

اور گاڑیوں میں موجود چینی یا پاکستانی عملے میں سے کتنے ہلاک ہوئے کتنے زخمی ہوئے یہ تو معلوم تھا اور ان سب کی لاشیں بھی موجود تھیں۔ دوسری جانب مقامی افراد کا کہنا ہے کہ واقعہ کے فوری بعد پاکستانی فوج اور سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے علاقے کا دورہ کیا۔ ابتدائی تحقیقات میں جہاں جائے وقوعہ سے شواہد اکھٹے کیے گئے وہیں علاقے میں سرچ آپریشن بھی کیا گیا اور مقامی لوگوں سے پوچھ گچھ بھی کی گئی۔

واقعے کے بعد پراجیکٹ کی تمام سائٹس پر جاری کام کو بھی فوری طور پر روک دیا گیا۔ یاد رہے کہ 14 جولائی کو داسوہائیڈروپاورپراجیکٹ سائٹ کے قریب اپرکوہستان میں داسو ڈیم کے ملازمین کو لانے لے جانے والی بس حادثے کا شکار ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں 10 افراد جاں بحق ہوگئے، جب کہ 39 افراد زخمی ہوگئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں چینی انجینئیرز بھی شامل تھے۔

ابتدائی بیان میں ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چودھری نے کہا کہ اپر کوہستان میں گیس لیکج دھماکے کے باعث بس کھائی میں جا گری ، حادثے کا شکار ہونے والی بس میں چینی ورکر سوار تھے ، بس کھائی میں گرنے سے گیس کا اخراج ہوا، گیس کے اخراج کی وجہ سے دھماکا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ بس تکنیکی خرابی اور دھماکے کے باعث کھائی میں گر گئی۔حادثے میں 9 چینی شہری اور تین پاکستانی جاں بحق ہوئے۔

چینی ورکرز پاکستانی عملے کے ہمراہ منصوبے پر کام کے لیے جا رہے تھے ۔ بعد ازاں وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ٹویٹر پر جاری پیغام میں کہا کہ داسو واقعے میں دھماکہ خیز مواد کے شواہد ملے ہیں ‘ دہشت گردی خارج از امکان نہیں ہے۔فواد چوہدری نے کہا کہ واقعے کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان ذاتی طور پر تمام پیشرفتوں کی نگرانی کر رہے ہیں ، اس سلسلے میں حکومت چینی سفارتخانے کے ساتھ بھی قریبی رابطے میں ہے ، ہم مل کر دہشت گردی کی لعنت سے لڑنے کے لئے پرعزم ہیں۔

جس کے بعد چینی وزارت خارجہ نے حادثے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ چین نے داسو دھماکے کی تحقیقات میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ داسو میں ہونے والے دھماکے کی تحقیات کے لیے چین اپنی ٹیم بھیجے گا۔چین تحقیقات میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چاہتا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے اس اعلان کے بعد وزیراعظم پاکستان عمران خان نے چینی ہم منصب سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انہیں داسو واقعے کی مکمل تحقیقات کی یقین دہانی کروائی ۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دشمن قوتوں کو برادرانہ تعلقات کو نقصان پہنچانے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے، واقعے کی تحقیقات کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ تاہم گذشتہ روز داسو بس واقعہ کی تحقیقات کیلئے چین کی اعلیٰ سطحی ٹیم اسلام آباد پہنچی۔ واقعہ پر آج وزیرداخلہ شیخ رشید کی چینی ہم منصب سے آدھا گھنٹہ ٹیلیفونک گفتگو بھی ہوئی جس میں واقعے کی تحقیقات جلد از جلد مکمل کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی، دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ کوئی بھی شرپسند طاقت پاکستان اور چین کے تعلقات کو خراب نہیں کر سکتی۔

جبکہ وزیراعظم عمران خان نے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو چین جانے کی ہدایت بھی کر دی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشہ کل چین کے لیے روانہ ہوں گے۔ واقعہ کے بعد چینی کمپنی نے داسو ڈیم پر کام بھی بند کر دیا۔ جنگ اخبار کی رپورٹ کے مطابق کوہستان میں چینی انجینئروں کی ہلاکت کے بعد چینی کمپنی ''چائنا گیزوبا گروپ کمپنی '' نے داسو ڈیم پر کام بند کر دیا ہے۔

جبکہ چینی کمپنی نے تمام پاکستانی ملازمین کو بھی برخاست کر دیا ۔کمپنی کی جانب سے جاری کیے گئے خط میں کہا گیا کہ 14 جولائی کے واقعے کے باعث کام جاری نہیں رکھ سکتے۔ خط میں چائنا گیزوبا گروپ کمپنی کایہ بھی کہنا ہے کہ تمام ملازمین کو گریجویٹیی اور تنخواہ ادا کی جائے گی۔داسو ڈیم کے پراجیکٹ ڈائریکٹر انوار الحق نے کمپنی کے کام بند کردینے اور چینی کمپنی کے خط کی بھی تصدیق کی۔

اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ جوں ہی سیکیورٹی کے معاملات درست ہوں گے،کام شروع ہو جائے گا۔ دوسری جانب چین کے سرکاری میڈیا کے ایڈیٹر ان چیف ہوزی جن نے وارننگ دیتے ہوئے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ انہوں نے کہا کہ کوہستان بس حملہ کے مجرم ابھی تک پکڑے نہیں گئے، اگر پاکستان میں ان مجرموں کو پکڑنے کی صلاحیت نہیں ہے تو پھر چینی میزائل اور سپیشل فورسز کاروائی کرسکتی ہیں۔

چین کے سرکاری میڈیا کے ایڈیٹر ان چیف ہوزی جن نے یہ بات خبر شئیر کرتے ہوئے کی جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں بس پر دہشتگردانہ حملے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ واپڈا کے زیرانتظام بننے والا یہ پراجیکٹ 2017ء میں شروع کیا گیا جس پر کُل لاگت کا تخمینہ 510 ارب روپے لگایا گیا ہے جوکہ 2025ء تک مکمل کیا جائے گا۔ ورلڈ بینک اور حکومت پاکستان کے اشتراک سے بننے والا یہ پراجیکٹ نا صرف کوہستان کے علاقے بلکہ پورے پاکستان میں روشنیوں اور ترقی کا ضامن بنے گا۔

کوہستان میں شائع ہونے والی مزید خبریں