آزاد کشمیر بھر میں 526آئی ۔ٹی ملازمین عرصہ 11سال سے تاحال ایڈہاک

تین حکومتیں گزر جانے کے باوجود ان کی مستقلی کے احکامات جاری نہ ہو سکے‘ہر چھ ماہ کے بعد توسیع کے لیے ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے

جمعرات 23 فروری 2017 14:38

کوٹلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 فروری2017ء)آزاد کشمیر بھر میں 526آئی ۔ٹی ملازمین عرصہ 11سال سے تاحال ایڈہاک ‘ تین حکومتیں گزر جانے کے باوجود ان کی مستقلی کے احکامات جاری نہ ہو سکے ۔2005-06میں آزاد کشمیر میں کمپیوٹر لیبزکے قیام کے ساتھ ہی جب میرپور میں کمپیوٹر انسٹرکٹرز اور کمپیوٹر لیب اسسٹنٹس کے ٹیسٹ انٹرویوز منعقد ہوئے تو قریباًً1300سے زائدماسٹرڈگری ہولڈرز(مرد و خواتین)نے اپلائی کیا۔

ڈی ۔جی انفارمیشن ٹیکنالوجی نے حکومتی ایماء پر اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ جو لوگ میرٹ پہ آئیںگے ان کی تقرری وقتی طور پر کنٹریکٹ پہ ہو گی لیکن جلد ہی انہیں مستقل بھی کر دیا جائے گا۔ ٹیسٹ انٹرویوزمیں میرٹ پہ آنے والے ملازمین کی تقرری کو ابھی ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ نئی حکومت آ گئی جس نے آتے ہی ان ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کرنے کا اعلان کر دیا۔

(جاری ہے)

جس سے ملازمین میںبے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ بلآخر کافی بحث و تمحیص کے بعد گورنمنٹ نے ان ملازمیں کو ایڈھاک کر دیااور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جلد ہی کوئی لائحہ عمل طے کر کہ سب کو مستقل کر دیا جائے گا۔ ملازمین کی امید بھری نظریں ایک بار پھر نئی حکومت پہ ٹِک گئیں لیکن یہ حکومت بھی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر کہ ان ملازمین کو پھر سے نئی آنے والی حکومت کے کھاتے میں ڈال کرچلی گئی۔

حکومتوں کی اس آمدورفت میں سب سے زیادہ رگڑا ان ایڈہاک ملازمین کو ہی لگتا رہاجواپنی مستقلی کے لیے کبھی ایک منسٹر کے پاس تو کبھی دوسرے منسٹر کے پاس پنڈولم کی طرح لڑھکتے رہے لیکن ان کی مستقلی کے احکامات جاری نہ ہو سکے۔ان ملازمین نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ 526ملازمین تاحال ایڈہاک ہیں۔جنھیںہر چھ ماہ کے بعد توسیع جیسے اعصاب شکن عمل سے گزرنا پڑتا ہے ۔

ہر چھ ماہ کے بعد توسیع کے لیے ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔اگر سرکاری دفاتر میں طریقہ کار کے مطابق کام ہو تو انھیں قدم قدم پر خوار نہ ہونا پڑے مگر ان سرکاری دفاتر میں جو لوگ تعینات ہیں وہ بھی ہماری طرح پیٹی بند بھائی ہیں ۔کرسی کے اُس طرف بیٹھنے والا کلرک بھی عوام ہے اور دوسری طرف عرضی گزار بھی عوام ہے اب جس کے پاس طاقت ہے وہ دوسرے کو زچ کر کے دم لے گا۔

لیکن اگراس سب کے بجائے حکومت عرصہ 11 سال سے زائدتعینات شاندار تعلیمی نتائج دینے والے ان ملازمین کو مستقل کر دے تووہ اس ساری افتاد سے بچ جائیں ۔ لیکن نہ جی!جب بھی کسی منسٹر سے بات کی گئی توانہوں نے سسٹم کی درستی اور میرٹ کی کہانی سنا کر ٹرخا دیا۔ یہ لوگ بھی تو ٹیسٹ دے کر میرٹ پہ تعینات ہوئے تھے۔ غریب نوجوانوں سے روزگار چھینا جا رہا ہے۔

میرٹ کا سارا منجن صرف ان غریب ملازمین کے لیے ہے کیا یہ میرٹ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے بیٹوںاور عزیز و اقارب پر قابل عمل کیوں نہیں۔کیا یہ ملازمین گوشت پوست کے بجائے پلاسٹک اور لوہے کی بنی چیزیں ہیں جن کی کوئی ضرورت ہے نہ حاجت، نہ کوئی خواہش ہے نہ تمنا، کوئی آرزو ہے نہ خواب۔ کیا گھر کا چولھا جلانے کے لئے تنخواہ نہیں بلکہ کسی کرامت کی ضرورت ہی ۔

کیا اس مہنگائی کے دور میں بوڑھے والدین اور بچوں کی بیماری کے لیے رقم کی نہیں بلکہ کسی دم چُف کی ضرورت ہی ۔آج ان تمام ملازمین کی امید بھری نظریں اس حکومت پہ ہیں کہ شاید ان کے مستقبل کا کچھ بہتر فیصلہ ہو جائے اور ان میں پائی جانے والی بے چینی اور اضطراب ختم ہو سکے۔ وزیر اعظم صاحب! آپ کا ہاتھ دینے والا ہو نہ کہ لینے والا۔آپ کی ایک جُنبش قلم سے ان غریب ملازمین کا مستقبل بگڑ بھی سکتا ہے اور سنوربھی سکتاہے ۔

جناب والا، میرے الفاظ کی سنگینی پر مت جائیے گا بلکہ ان الفاظ کے پیچھے ان غریب ملازمین کے چھپے دکھ اور بے بسی و لا چاری کو دیکھ لیجئئے گا۔ کچھ لمحوں کے لیے خود کو ان نوجوانوں کی جگہ پر لا کر سوچئے گا کہ خدانخواستہ اگرآپ یا آپ کا بیٹا ان میں سے کسی ملازم کی جگہ ہوتے اور ایسی اعصاب شکن صورتحال سے دوچار ہوتے تو کیا آپ کا دل خون کے آنسو نہ رو رہا ہوتا۔

چند لمحے آنکھیں بند کر کہ کسی ملازم کی ضعیف بیمار ماں کی آنکھوں میں اٹکے آنسوئوں کا تصور کر لیجیئے گا، کسی بوڑھے باپ کے معاشی بوجھ سے تھکے،جھکے کندھوں کا سوچ لیجیئے گا، کسی گھر کے واحدمعاشی سہارے کی بہن کے سر پہ پھٹے دوپٹے کے نیچے اترتی چاندی کو دیکھ لینا،ا گر یہ بھی نہیں تو پھر اپنے بچے کو آنکھوں کے سامنے رکھ کر کسی غریب ملازم کے معصوم بچے کے سسکتے لبوں پہ دم توڑتی کسی معصوم خواہش کا تصور کر لیجئئے گا۔

کوٹلی میں شائع ہونے والی مزید خبریں