یو نیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں پاکستان انجینئرنگ کونسل کا اجلاس

انجینئرز کے مسائل اور انکے حل کے حوالے سے مختلف قراردادیں پیش کی گئیں

جمعرات 29 نومبر 2018 23:54

لاہور۔29 نومبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 29 نومبر2018ء) یو نیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں پاکستان انجینئرنگ کونسل کے 25ویں سالانہ جنرل باڈی اجلاس کا انعقادکیا گیا۔اجلاس میںچیئرمین پی ای سی کونسل انجنیئر جاوید سلیم قریشی، کنوینر اور وائس چیئرمین پی ای سی پروفیسر ڈاکٹر فضل احمد خالد ،سابق چیئرمین پی ای سی اکرم شیخ ،سینیٹر رخسانہ اور سابق وائس چیئر مین نے خصوصی شرکت کی ۔

اجلاس میںملک بھر سے انجنیئرز کے مسائل اور انکے حل کے حوالے سے مختلف قراردادیں پیش کی گئیںاور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ پورے ملک میں انجینئرز کی ترقی اور فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جائے گا۔مزید برآں اجلاس میں سالانہ بجٹ بھی پیش کیا گیا جو کہ منظور ہوا۔

(جاری ہے)

جبکہ چیئرمین پاکستان انجینئرنگ کونسل انجینئرجاوید سلیم قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی 200 یا 300 ارب ڈالر ایکسپورٹ ہونی چاہئے جو کہ بہت کم ہے۔

ہم نے بین الاقوامی مندوبین کو پاکستان بلوا کر انہیں یونیورسٹیز کا دورہ کروایا جس کے تحت ہمیں واشنگٹن اکارڈ کی ممبر شپ ملی۔پاکستان 19 واں واشگنٹن ایکارڈ کا ممبر بن گیاہے۔اب پاکستان کے انجیئنر بغیر کسی امتحان کے انڈسٹری میں کام کر سکتے ہیںاور اپنی خدمات سر انجام دے سکتے ہیں۔ہم نے واشگنٹن ایکارڈ 2015 میں حاصل کیا۔ایک سال میں ہم نے انٹرنیشنل انجینئرنگ لائسنس آف ایکریڈیشن حاصل کیا۔

یہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ہمارے یہاں ایک عام تاثر یہ ہے کہ یونیورسٹی میں ڈگری دیتے ہیں ریسرچ نہیں کرواتے ہیں۔معاشیات نے اساتذہ کو اس حد تک مجبو کر دیا ہے کہ پیسے کے پیچھے بھاگتے ہیں کیوں کہ ان کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔جس طرح بولتے ہیں ووٹ کو عزت دو اس طرح نعرہ لگنا چاہیئے علم کو عزت دو۔ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری آپ کی ایکسپورٹ نہیں بڑھا سکتی جب تک انجیئرنگ انڈسٹری پر سرمایہ کاری نہیں کی جائے گی۔

22 کروڑ کی آبادی ہے کیا کریں گے۔لیبارٹریز ضائع ہورہی ہے جو کہ یونیورسٹی میں موجود ہیں۔ہماری یونیورسٹیز کے پاس پیسے نہیں ہے جس کی وجہ سے مسائل در پیش ہیں۔پاور سیکٹر پالیسی بنانے میں بھی گورنمنٹ کی مدد کررہے ہیں۔اجلاس میں انجنیئرنگ جامعات میں ڈپلومہ ہولڈر کی سیٹیں بڑھانا، انجنیئرز کے لئے ہائوسنگ سوسائٹیز بنانے کی تجاویز،آسان قرضوں کی فراہمی، سیکیورٹی کیلئے بہترین اقدامات اور انشورنش کے لئے پالیسی بنانے کے حوالے سے قراردادیں پیش کی گئی۔

سابق چیئرمین پی ای سی اکرم شیخ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی معیشت کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 2005 میں سی پیک پر بات شروع ہوئی تواس کا نام نیشنل کوڈیڈور تھا اس کامقصد صرف یہ نہیں تھا کہ راہ داری ہوگی اور ہمیں پیسے مل جائیں گے۔تا ہم ،ہم سی پیک میں اپنا حصہ اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنے مساملکی ئل حل نہیں کریں گے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ ہم کوئی پلانٹ مشینری نہیں بنا رہے ہیں۔ہمارے یہاںدبئی سے پرانی مشینری منگوائی جاتی ہے۔40 سال قبل کوریا کی32 جبکہ پاکستان کی اس سے 10 گناہ زیادہ ایکسپورٹ تھی۔آج پاکستان کی 33 اورکوریا 600 ارب ڈالر پرہے۔40 ارب ڈالر اس وقت بنگلہ دیش کی ایکسپورٹ ہے جنکہ ہماری 25 ارب ڈالر سے بھی کم ہو گئی ہے۔مزیدیہ کہ ہماری جی ڈی پی کا 20 فیصد ضائع ہوجاتاہے۔تقریبا100 ارب ڈالر معیشت میں ضائع ہوتے ہیں۔انجینئرنگ پر تو زور دیا جاتا ہے مگر ٹیکنالوجی پر کچھ کام نہیںہو رہا ۔یونیورسٹی سے بچے کچھ سیکھ کر نہیں آتے ہیں اور جب انڈسٹری میں آتے ہیں تو انہیں مختلف قسم کے سمائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں