پنجاب میں ہرتین میں سے ایک خاتون تشدد کا شکار ہے‘ جسٹس سید منصور علی شاہ

جینڈر بیسڈ وائیلنس کیسز کو سمجھنے کیلئے ہمیں اپنی مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کو اپنے ذہن میں رکھ کر سوچناہوگا عورت وہ صنف ہے جو ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ کمزور ہے جسے جنسی، جسمانی، ذہنی اور معاشی تشدد کا سامنا ہے ‘چیف جسٹس لاہو ر ہائی کورٹ کا تقریب سے خطاب

پیر 23 اکتوبر 2017 21:23

پنجاب میں ہرتین میں سے ایک خاتون تشدد کا شکار ہے‘ جسٹس سید منصور علی شاہ
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 اکتوبر2017ء) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ جینڈر بیسڈ وائیلنس کیسز کو سمجھنے کیلئے ہمیں اپنی مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کو اپنے ذہن میں رکھ کر سوچناہوگا ، عورت وہ صنف ہے جو ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ کمزور ہے جسے جنسی، جسمانی، ذہنی اور معاشی تشدد کا سامنا ہے اور ہمارے صوبے میں ہر تین میں سے ایک خاتون کسی ایسے ہی تشدد کا شکار ہے۔

فاضل چیف جسٹس نے ان خیالات کا اظہار لاہور سیشن کورٹ میں پنجاب کی پہلی جینڈر بیسڈ وائیلنس کیسز کورٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار محمد شمیم خان، جسٹس محمد قاسم خان ، جسٹس عالیہ نیلم، رجسٹرار سید خورشید انور رضوی، ڈی جی ڈسٹرکٹ جوڈیشری محمد اکمل خان، ڈی جی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی ماہ رخ عزیز ، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہور عابد حسین قریشی، صدر لاہور بار ایسوسی ایشن چودھری تنویر اختر سمیت جوڈیشل آفیسرز اور وکلاء کی بڑی تعداد موجود تھی۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ آج کا یہ دن ہماری مائوں بہنوں اور بیٹیوں کے نام ہے جو ہماری آبادی کا پچاس فیصد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قصہ کچھ یوں ہے کہ آج سے کچھ ماہ پہلے ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے کچھ نمائندوں بشمول سائوتھ آسٹریلیا کی سپریم کورٹ کی سابق جج رابن لیٹن اور مسں ارم نے مجھ سے ملاقات کی اور ججز کی صنفی حساسیت کے موضوع پر ٹریننگ کی درخواست کی اوراسی تسلسل میں ٹریننگ کا پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں آغا ذ ہوا، دوسری وومن ججز کانفرنس میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ عنقریب جینڈر کورٹ کا آغاز کیا جائے گا، جینڈر بیسڈ وائیلنس کیسز کورٹ سلمان اکرم راجہ کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جاری ہدایات، انٹر نیشنل پریکٹسز اور دیگر ممالک کے کورٹس کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی ہے، جس کی بہت اشد ضرورت تھی۔

انہوں نے کہا کہ عورت کو معاشرے میں بہت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن جب وہی عورت کوئی شکایت لے کر عدالت آتی ہے تواسے یہاں بھی ایسے ہی ماحول کا سامنا کرنا پڑے تو یقیناًً ہم ناکام ہوگئے ، ہمارا نظام مکمل فیل ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت تو وہ جگہ ہوتی ہے جہاں سائلین تحفظ محسوس کرتے ہیں، انصاف کی امید رکھتے ہیں لیکن اگر عدالتوں میں ہی احساس تحفظ اور انصاف کی امید نہ رہے تو لوگ کہاں جائیںگے۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی واضع ہدایات موجود ہیں لیکن2013 سے ابتک اس فیصلے پر کوئی عملدرآمد نہیںہوسکا۔ لیکن ہم جسٹس رابن لیٹن کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ہم نے یہ احساس ذمہ داری پیدا کیا اور اسی احساس ذمہ داری کو ذہن میں رکھتے ہوئے آج ایک ایسی عدالت کا آغاذ کیا جارہا ہے جہاں خواتین اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے خلاف احساس تحفظ اورآزادی کے ساتھ آوازبلند کر سکیںگی اور کسی بھی قسم کے تشدد کی شکار متاثرہ خاتون پرسکون اورپر تحفظ ماحول میں اپنا بیان ریکارڈ کروا سکے گی اور خواتین دوسرے کمرے میں بیٹھ کر ویڈیو لنک کے ذریعے بھی بیانات ریکارڈ کروا سکیں گی۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا سیشن کورٹ لاہور عابد حسین قریشی بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے صرف ایک ہفتے میں ایسی کورٹ کے قیام کو یقینی بنایا اور بہت جلد بچوں کیلئے بھی ایک ایسی ہی ماڈل کورٹ بنائی جائے گی۔انہوں نے کہا ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ہم نے کوئی نظام تبدیل نہیں کیا بس جدید طریقے اپنائے ہیں، اب بارکو بھی اس میںاپنامثبت کردار ادا کرتے ہوئے ہمارا ساتھ دینا ہے۔

یہ ادارہ ہمارے لئے ماں کا درجہ رکھتا ہے اور ججز اور وکلاء کا اسی ادارے سے وابسطہ ہے۔ ہمیں لوگوں کو انصاف تک آسان رسائی ممکن بنانا ہے، ہمارسارا دن کام کرنے کا مقصد دعائیں لینا ہوتا ہے اور اس عدالت سے انصاف لینے والی خواتین ہمیں ڈھیروں دعائیں دیں گی۔ ان کا کہنا تھا خود کو تبدیل کرنے کیلئے زندگی میں ایسے مواقع بہت کم آتے ہیں، ہمیں اس سے استفادہ کرنا چاہیے، ہمیں اس تبدیلی میں اپنا اپنا حصہ ڈالناہے۔

فاضل چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جینڈ سٹڈیزہمارے لئے بہت ضروری ہو چکی ہے۔ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میںججزکو جینڈر سٹڈیز پر تربیتی کورسز کروائے جارہے ہیں، ہم بار سے بھی کہتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے اپنا پروگرام تشکیل دیں ، ہم ہر طرح کے تربیتی کورسز کروانے کیلئے تیار ہیں۔ قبل ازیں تقریب سے جسٹس عالیہ نیلم کا کہناتھا کہ ماڈل کورٹ میں خواتین بغیر کسی خوف کے اپنا بیان قلمبند کرا سکیں گی ، انہوں نے کہا کہ میری چیف جسٹس سے درخواست ھے کہ اس طرح کے ماڈل کورٹ بچوں کے مقدمات کیلئے بھی ھونے چاہیں۔

جینڈر سٹڈیز کی بین الاقوامی ماہر جسٹس رابن لیٹن نے اس موقع کو پاکستان کیلئے تاریخ ساز قرار دیتے ہوئے کہا کہ مختصر عرصہ میںایسی کورٹ کے قیام پر تمام سٹیک ہولڈرز بشمول پولیسں، وکلاء، پراسیکیوٹر ز اور عدلیہ کا شکریہ ادا کرتی ھوں۔ صدر لاہور بار چوہدری تنویر اختر نے سائیلین کو انصاف کی باہم فراہمی کے سلسلے میں چیف جسٹں کی کاوشوں بشمول مصالحتی نظام اور ماڈل کورٹس کو سرا ہتے ہوئے جینڈر کورٹ کے قیام کو انہی کوششوں کی ایک کڑی قرار دیا۔

ان کا کہناتھا کہ جینڈر کورٹ کے قیام سے سائیلین کو نہ صرف انصاف ملے گا بلکہ اس سے کرائم بھی کم ہو گا۔بار کے صدر نے کہا کہ پوری ڈسٹرکٹ بار کی کابینہ اور کریمنل لاء کے وکلاء نے ڈسٹرکٹ اور سیشن سے ملاقات کی اور ماڈل کورٹ کو کامیاب کرنے میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہور عابد عزیز قریشی نے کہا کہ جینڈر بیسیڈ وائیلنس کیسز کورٹ پنجاب کی پہلی ماڈل کورٹ ہے جہاںگھریلو ، جنسی ، نفسیاتی تشدد اور تیزاب گردی کے کیسز کی سماعت ھو گی۔

ڈی جی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی ماہ رخ عزیز نے اس موقع پر کہا کہ خواتین پاکستان کی کل آبادی کا تقریبا پچاس فیصد ہیں۔دوسری وومن ججز کانفرنس کی گزارشات میں سے ایک جینڈر بیسڈ وائلنس کیسز کورٹ کا قیام تھا اتنے قلیل وقت صرف سات دن اس کا قیام ایک خواب لگتا ہے۔سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن کی روشنی میں اسکا قیام خوش آئند ہے۔

متعلقہ عنوان :

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں