سپریم کورٹ، زیر زمین پانی نکال کر فروخت کرنے والی کمپنیوں، وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری، جواب طلب

نیلسے کمپنی کا آڈٹ مکمل ہونے تک کمپنی کی سی ای او عدالت میں موجود رہیں، آڈٹ سپریم کورٹ کی عمارت میں ہو گا،ریمارکس

ہفتہ 6 اکتوبر 2018 21:23

سپریم کورٹ، زیر زمین پانی نکال کر فروخت کرنے والی کمپنیوں، وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری، جواب طلب
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 06 اکتوبر2018ء) چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے زیر زمین پانی نکال کر فروخت کرنے والی کمپنیوں، وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا، عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیلسے کمپنی کا آڈٹ مکمل ہونے تک کمپنی کی سی ای او عدالت میں موجود رہیں، آڈٹ سپریم کورٹ کی عمارت میں ہو گا۔

(جاری ہے)

عدالتی حکم پرنیسلے کی جانب سے اکیاسی ڈبوں پر مشتمل ریکارڈعدالت میں پیش کیا گیا،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے متعلقہ دستاویزات مانگیں آپ نے غیر ضروری ڈبے لا کر سپریم کورٹ میں رکھ دئیے،چیف جسٹس نے نیلسے کے وکیل اعتزاز احسن سے کہا کہ عدالت نے فرانزک آڈیٹر مقرر کیا آپ نے اس پر کیسے اعتراض کیا، اب یہ آڈٹ سپریم کورٹ کی عمارت میں ہو گا، اب حجت کے طور پر سی ای او ساتھ بیٹھے گی،جب تک آڈٹ مکمل نہیں ہوتا کمپنی کی سی ای او ہر روز آڈٹ کا کام مکمل ہونے تک موجود رہیں گی،چیف جسٹس نے ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ کو ہدائت کی کہ آڈٹ کے لئے دو کمرے مختص کئے جائیں،کمپنی کی سی ای او اور دیگر سٹاف کو صرف واش روم استعمال کرنے کی سہولت دی جائے،چیف جسٹس نے کہا کہ اگر عدالتی حکم مناسب نہیں تو جا کر ٹی وی پر بیان دے دیں، عدالت نے واضح کیا کہ زیر سماعت کیس سے متعلق پہلے ہی بیان بازی سے منع کر چکے ہیں، عدالتی معاون میاں ظفر اقبال کلانوری نے کہا کہ نیلسے کمپنی نے غیر قانونی طور پر اربوں روپے کا پانی فروخت کر دیا،ٹیکس بھی عوام کی جیب سے دیا جا رہا ہے،نیسلے نے 3 سال میں 2.7 بلین لیٹر پانی استعمال کیا،انہوں نے کہا کہ اعتزاز احسن مفادعامہ کی بجائے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی وکالت کر رہے ہیں،اعتزاز احسن نے کہا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی وکا لت کرنا جرم نہیں،میاں ظفر اقبال کلانوری نے کہا کہ کسی کی پگڑیاں اچھالنے کا آپ کوبھی کوئی اختیار نہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ نیسلے پانی نکالنے کا ایک پیسے کاسوواں حصہ ٹیکس ادا کر رہا ہے،نیسلے کا پانی غیرمعیاری ہے میں نے تو پینا چھوڑ دیا،نیسلے کی بوتل کے لیبل پر جو لکھا وہ جھوٹ ہے پانی میں منرلز شامل ہی نہیں، ڈی جی فوڈ اتھارٹی کیپٹن (ر) عثمان نے کہا کہ نیسلے کی بوتل پر موجود لیبل کے مطابق پانی میں منرلز شامل نہیں ہیں، فوڈ اتھارٹی کے وکیل میاں افتخار نے کہاکہ نیلسے کا پانی رجسٹرڈ نہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ شیخوپورہ میں ٹربائن لگا کرپائی بوتلوں میں بھر کر بیچا جا رہاہے، جن منرلز کے شامل کرنے کا دعوی کیا گیا وہ کہاں سے درآمد کئے گئے رپورٹ دی جائے، عدالتی حکم پر نیسلے کمپنی کی سی ای او عدالت میں پیش ہوئی، عدالت نے کہا کہ بتایا جائیکہ پانی فروخت کرنے کے کیا نرخ ہونا چاہئیں،چیف جسٹس نے واضح کیا کہ منرل واٹر کمپنیوں کی طرف سے فی لیٹر اعشاریہ دو پیسے کی ادائیگی کوئی ریٹ نہیں، کم از کم نرخ 50 پیسے یا 1 روپیہ فی لیٹر ہونا چاہیے،چیف جسٹس نے کہ کہ پانی ملک کا سب سے بڑا عطیہ ہے جو مفت میں دیا جا رہا ہے،نیسلے کمپنی کرائے کی جگہ لے کر وہاں سے مفت کا پانی بیچ رہی ہے، منرل واٹر کمپنیوں نے اربوں روپے کمائے،نیسلے 25 سال سے پاکستان میں کام کر رہی اور پانی کی رقم ادا نہیں کی، سیلز ٹیکس تو آپ ادا کرتے ہیں اور پانی کی صورت میں خام مال کے استعمال پر ٹیکس کس نے دینا ہے، ہم گھروں پر کشت کر کے پانی بچا رہے ہیں اور آپ کرائے کی جگہوں سے پانی نکال کر بیچ رہے ہیں، نیسلے کی پورٹ قاسم والی فیکٹری کا بھی دورہ کروں گا کہ پانی کہاں سے لے رہے ہیں، چیف جسٹس پاکستان ے اکائونٹنٹ جنرل پنجاب کوفرانزک آڈٹ کیلئے ٹیم تشکیل دیکر رپورٹ پیش کرنے کی ہدائت کر دی، عدالت نے مزید کارروائی آئندہ جمعرات تک ملتوی کر دی۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں