لاہور ،مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحہ سے سبق سیکھا جانا چاہئے، خورشید محمود قصوری

بحیثیت قوم ہمیں ان تمام اسباب و محرکات کا جائزہ لینا چاہئے جو اس سانحہ کا باعث بن، کرنل (ر) زیڈ آئی فرخ کی کتاب حقائق کے بے لاگ تجزیے پر مبنی ہے جس کا مطالعہ ہر پاکستانی کو کرنا چاہئے، سابق وزیرخارجہ کاتجزیاتی خود نوشت ’’ بچھڑ گئے‘‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب

جمعرات 13 دسمبر 2018 23:05

لاہور ،مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحہ سے سبق سیکھا جانا چاہئے، خورشید محمود قصوری
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 13 دسمبر2018ء) مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحہ سے سبق سیکھا جانا چاسہئے۔ بحیثیت قوم ہمیں ان تمام اسباب و محرکات کا جائزہ لینا چاہئے جو اس سانحہ کا باعث بنے۔ کرنل (ر) زیڈ آئی فرخ کی کتاب حقائق کے بے لاگ تجزیے پر مبنی ہے جس کا مطالعہ ہر پاکستانی کو کرنا چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار سابق وزیرخارجہ میاں خورشید محمود قصوری نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان ، شاہراہ قائداعظمؒ لاہور میں ممتاز دانشور اور تجزیہ کار کرنل (ر) زیڈ آئی فرخ کی سانحہ مشرقی پاکستان کی تجزیاتی خود نوشت ’’ بچھڑ گئے‘‘ کی تقریب رونمائی میں اپنے صدارتی خطاب کے دوران کیا۔

تقریب کا اہتمام نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔

(جاری ہے)

اس تقریب کی صدارت سابق وزیر خارجہ میاں خورشید محمود قصوری نے کی جبکہ اس موقع پر لیفٹیننٹ جنرل(ر) سہیل جعفری، ممتاز دانشور اور روزنامہ پاکستان کے ایڈیٹر انچیف مجیب الرحمن شامی، روزنامہ 92 کے گروپ ایڈیٹر ارشاد احمد عارف ، معروف دانشور اور پبلشر فرخ سہیل گوئندی، ممتاز عسکری تجزیہ کار بریگیڈیئر(ر) فاروق حمید خان، کالم نگار اور دانشور قیوم نظامی، نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین وحضرات بڑی تعداد میں موجود تھے۔

پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن مجید‘ نعت رسول مقبولؐ اور قومی ترانہ سے ہوا۔ تلاوت کی سعادت قاری خالد محمود نے حاصل کی جبکہ محمد بلال ساحل نے بارگاہ رسالت مابؐ میں ہدیہٴ عقیدت پیش کیا۔ نشست کی نظامت کے فرائض ناصر شیرازی نے اداکئے۔میاں خورشید محمود قصوری نے کہا کہ صاحب کتاب نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بطور قوم اپنے رویوں کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے۔

مشرقی پاکستان میں وقت پر انتقال اقتدار نہ ہونے سمیت کئی ایک وجوہات ہیں جن کے باعث ہمیں سقوط ڈھاکہ کا کربناک دن دیکھنا پڑا۔ بنگلہ دیش میں اس وقت جمہوریت کی شکل میں انڈین سپانسرڈ آمریت کا دور ہے جو چن چن کر متحدہ پاکستان کے حامیوں کو قتل کر رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل(ر) سہیل جعفری نے کہا کہ یہ کتاب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں فوجی معاملات کے علاوہ ذاتی وابستگیوں کا بھی تذکرہ موجود ہے۔

انہوں نے مشرقی پاکستان کے حالات و واقعات کا بے لاگ تجزیہ کیا ہے اور اس حوالے سے پیدا شدہ سوالات کا اطمینان بخش جواب دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں بازوئوں کے درمیان طویل جغرافیائی فاصلے اور بھارت کی سازشوں نے بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستانی فوج نے نہایت مشکل حالات میں یہ جنگ لڑی۔ ہم قومی تشخص کے تصور کو مضبوط نہ بنا سکے جس کے باعث دونوں بازوئوں میں دوری پیدا ہوئی۔

مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ مصنف نے کتاب میں محبت اور نفرت کو خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ ہمارے دل کا روگ ہے۔ یہ سانحہ ایک خلش اور کرب ہے۔ اس موضوع پر امریکہ‘ انڈیا‘ بنگلہ دیش اور پاکستان میں بہت زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ یہ کتاب ان میں ایسا بہترین اضافہ ہے جس میں مبنی برحقائق گفتگو کی گئی ہے۔

ایک سقوط ڈھاکہ وہ ہے جو 1971ء میں پیش آیا اور دوسرا سقوط ڈھاکہ وہ ہے جو 2008ء میں حسینہ واجد کے وزیراعظم بننے کے بعد دنیا دیکھ رہی ہے۔ پاکستان کو اس صورت حال کا فوری جائزہ لینا چاہئے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ ہمارے تعلقات میں تنائو نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا حق حاکمیت چھینے جانے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔ سیاسی مسائل کو سیاسی انداز میں مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہئے۔

سید ارشاد احمد عارف نے کہا کہ مغربی پاکستان سے وہاں بھیجے گئے بیورو کریٹس کے رویے نے بھی بنگالیوں کو متنفر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ مجیب الرحمن بھارتی رہنمائوں سے رابطے میں تھا اور اس نے بھارت سے مل کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔ اس سانحہ کے لئے صرف فوج کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ سیاست دان بھی یکساں طور پر ذمہ دار تھے۔

ہمیں اس سانحے سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ کیا آج ہمارے سیاست دان‘ جرنیل اور دانشور عوام کے کسی طبقے سے ویسا سلوک تو نہیں کررہے جیسا مشرقی پاکستان کے لوگوں سے روا رکھا گیا۔ بریگیڈیئر(ر) فاروق حمید خان نے کہا کہ اس کتاب میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی وفات کے بعد سے لے کر دسمبر 1971 ء تک کے مشرقی پاکستان سے متعلقہ حالات و واقعات کا تذکرہ ہے۔

اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ ایک نوجوان کپتان کی تحریر کردہ ہے جو دوران جنگ اہم ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا۔ ہماری سیاسی و عسکری قیادت کی غیر دانشمندی کے باعث یہ سانحہ رونما ہوا۔ صدر ایوب خان کی طرف سے جنرل یحییٰ کو اقتدار سپرد کرنے کا فیصلہ بڑی غلطی تھی کیونکہ وہ اخلاقی طور پر بدعنوان تھا۔ ایوب خان کو چاہئے تھا کہ سپیکر قومی اسمبلی کو اقتدار سونپ دیتا۔

انہوں نے کہا کہ یہ سانحہ ہماری قیادت کی اجتماعی ناکامی کا مظہر ہے۔ اس مسئلے کا بات چیت کے ذریعے حل نکالا جا سکتا تھا۔ جمہوریت میں اکثریت کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے‘ لہٰذا شیخ مجیب کو عام انتخابات میں اکثریت ملنے کے بعد اقتدار اسے دے دیا جانا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ فوجی ساز و سامان کی شدید قلّت کے باوجود پاکستانی فوج نے بہادری سے بھارتی فوج کا مقابلہ کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ اسے مقامی آبادی کی مخالفت کا بھی سامنا تھا۔ بھارت اور سوویت یونین کے درمیان فوجی معاہدہ نے بھی بھارت کو پاکستان کے خلاف جارحیت کا حوصلہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج پر 30 لاکھ بنگالیوں کے قتل کا الزام بالکل بے بنیاد ہے۔ سانحہٴ مشرقی پاکستان کے ذمہ دار تمام کردار عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے۔ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ میں اس سانحہ کے ذمہ دار قرار دیئے جانے والوں میں سے کسی شخص کو بھی مقدمے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

کتاب کے مصنف کرنل(ر)زیڈ آئی فرخ نے کہا کہ مشرقی پاکستان لوگ متحدہ پاکستان سے بہت محبت کرتے تھے۔ درحقیقت وہ ہم سے ہرگز بچھڑنا نہ چاہتے تھے۔ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی آئندہ نسل کو تاریخ سے آگاہ کرنا چاہیے تاکہ خدانخواستہ آئندہ کبھی ایسا سانحہ رونما نہ ہو۔ شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان میں لسانی تحریک کے ذریعے خود کو آگے بڑھایا۔

انہوں نے کہا کہ نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین کو بیوروکریسی نے چکر دیا کہ گورنر جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے کر وزارت عظمی سنبھال لیں اور ایک بیورو کریٹ غلام محمد کو گورنر جنرل بنوا دیا جو کسی بھی وزیراعظم کو کان سے پکڑ کر باہر نکالنے کے اختیارات کا مالک تھا۔ بھارت تو دشمنی کرہی رہا تھا‘ خود ہمارے رہنمائوں نے بھی بڑی سنگین کوتاہیاں کیں جن کا انجام مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں برآمد ہوا۔

دراصل تمام طبقات کی ناکامی کے باعث یہ سانحہ رونما ہوا جو ملک سے وفاداری کی قیمت ادا کرنے سے قاصر رہے۔ پاکستانی قوم بڑی اولوالعزم ہے جس نے انتہائی نامساعد حالات کا کامیابی سے سامنا ہے۔قیوم نظامی نے کہا کہ یہ کتاب زبان و بیان کی تمام خوبیوں سے آراستہ ہے۔ مصنف نے خوب محنت اور تحقیق کے بعد کتاب لکھی ہے۔ کتاب میں بیان شدہ واقعات میں کہیں بھی جھول یا خلاء کا شائبہ تک محسوس نہیں ہوتا۔

انہوں نے سیاسی و عسکری محاذ پر پیش آنے والے حالات و واقعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے کہا ہمارے ہاں ’’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘‘ کے فلسفے پر آج بھی غیر محسوس انداز میں عمل ہو رہا ہے۔ عالمی گٹھ جوڑکے نتیجے میں ملک کو اس سانحے کا سامنا کرنا پڑا۔ فرخ سہیل گوئندی نے کہا کہ کتاب میں تاریخی حقائق کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

کرنل (ر) زیڈ آئی فرخ کی کتاب ریکارڈ کی درستگی کے لیے مستقبل میں ایک حوالے کے طور پر پیش کی جائے گی۔ انہوں نے کہا تاریخ سبق سیکھنے کے لیے ہوتی ہیں۔ یہی کام اس کتاب سے بھی لیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنی تاریخ سے سبق سیکھ کر مستقبل کو بہترین بنانا چاہئے۔ یہ کتاب کسی طور پر بھی غیر ملکی مصنفین کی مذکورہ موضوع کے حوالے سے لکھی گئی کتب سے کم اہمیت کی حامل نہیں ہے۔

شاہد رشید نے کہا کہ کرنل(ر) زیڈ آئی فرخ نے سقوط ڈھاکہ کے واقعات کی صحیح منظر کشی کی ہے۔ انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے المناک سانحہ کے پس منظر، وجوہات اور اثرات کو سلیس انداز میں قلمبند کیا ہے۔ جنگ دسمبر 1971ء میں پاکستان کی فوجی نہیں بلکہ سیاسی ناکامی تھی۔ چند لال بجھکڑ قسم کے دانشور قوم کو گمراہ کر رہے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی خود اعتراف کر چکے ہیں کہ مکتی باہنی کے پیچھے بھارتی فوج تھی اور ہمارا مقصد پاکستان کو دولخت کرنا تھا۔

ناصر شیرازی نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے المناک سانحہ ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا ۔ اس سانحہ نے ہر محب وطن شہری کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کر دیا تھا۔ کرنل(ر) زیڈ آئی فرخ نے بہت خوبصورت انداز میں اس سانحہ کے بعض چھپے گوشوں کو بے نقاب کیا ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں