سانحہ ساہیوال ، جب آپریشن دہشتگردوں کے خلاف اور انٹیلی جنس بیسڈ تھا تو پھر سی ٹی ڈی کےاہلکاروں کے خلاف مقدمہ کیوں درج کیا گیا؟

قانونی ماہرین نے سانحہ ساہیوال سے متعلق کئی سوالات اُٹھا دئے

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین پیر 21 جنوری 2019 11:17

سانحہ ساہیوال ، جب آپریشن دہشتگردوں کے خلاف اور انٹیلی جنس بیسڈ تھا تو پھر سی ٹی ڈی کےاہلکاروں کے خلاف مقدمہ کیوں درج کیا گیا؟
لاہور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 21 جنوری 2019ء) :سانحہ ساہیوال میں چار افراد کی ہلاکت اور بچوں کو زخمی کرنے پر وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی ہدایت پر آپریشن میں ملوث تمام اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا۔ ساہیوال میں کی جانے والی سی ٹی ڈی کی اس کارروائی کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا لیکن قانونی ماہرین نے اس پر کئی سوالات کھڑے کر دئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہیں تو محکمہ کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی رائے محمدطاہرکی موجودگی تحقیقات پر اثرانداز ہو سکتی ہے ، اس لئے انہیں اس عہدے سے ہٹایا جانا ضروری ہے ۔ سانحہ ساہیوال کے درج شدہ مقدمے پر قانونی ماہرین نے سوال اُٹھایا کہ صوبائی وزرا نے گذشتہ روز کی جانے والی پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ یہ آپریشن دہشت گردوں کے خلاف تھا اور 100فیصد انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیا گیا۔

(جاری ہے)

اگر واقعی ایسا تھا تو پھر سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ کیوں درج کیا گیا؟ صوبائی وزرا نے کہا کہ جے آئی ٹی کی جو بھی رپورٹ آئی ، اس پر مکمل عمل کیا جائے گا اگر یہ رپورٹ وزرا اور سی ٹی ڈی کے دعوے کے خلاف آئی تو پھر کس کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا؟ ماہرین نے کہا کہ سپروائزر کی معطلی سے کیا ہوگا، اصل میں تو محکمہ کے سربراہ کو معطل کیا جانا چاہئیے ورنہ وہ تفتیش پر بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں، ان کے دور میں پہلے ہونے والے مقابلوں پر بھی سوالیہ نشان اُٹھ گیا ۔

جب عینی شاہدین اور وقوعہ کی فوٹیجز میں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ کارسواروں کی طرف سے فائرنگ کی گئی تو پھر انہیں کیوں نشانہ بنایا گیا اورگرفتار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ اس طرح کے کیسز میں متعلقہ شخص کو مارنے کے بجائے حراست میں لینے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اس سے اس کے نیٹ ورک کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں، تو پھر ذیشان کو قتل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ سی ٹی ڈی کے مطابق گاڑی ان کے زیرنگرانی تھی تو پھر اسے لاہور میں ہی کیوں نہیں روکا گیا، یہاں جدید ترین سیف سٹی سسٹم کام کر رہا ہے ، اس سے مدد کیوں نہیں ملی؟ ساہیوال میں یا ٹول پلازہ کے کیمروں کی مدد حاصل کرنے کا دعویٰ کیوں کیا گیا؟ گاڑی میں خود کش جیکٹیں ، دستی بم اور دیگر اسلحہ ہونے کا دعویٰ کیا گیا تو سی ٹی ڈی نے یہ اسلحہ میڈیا کو دکھایا کیوں نہیں اور اتنی زیادہ فائرنگ کے باوجود بارود کیوں نہیں پھٹا؟ وزرا کی پریس کانفرنس پر عوامی حلقے یہ سوال نہیں اُٹھائیں گے کہ اسے سی ٹی ڈی کے کوراپ کے طورپراستعمال کیا گیا۔

قانونی ماہرین کے مطابق جھوٹی دفعہ درج کرنا قانوناً جرم ہے اور اس جرم میں دوران تفتیش ایف آئی آر کا مدعی سب انسپکٹر صفدر بھی سزا کا مستحق ہو گا،سانحہ ساہیوال میں سی سی ٹی وی فوٹیج میں کوئی ایسے شواہد نہیں ملتے جس سے ظاہر ہو کہ مین روڈ پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا یا کار سوار ذیشان یا کسی اور کی طرف سے کوئی مزاحمت کی گئی ہو، میڈیا رپورٹ میں کہا گیا کہ کار سوار ذیشان کی سیٹ بیلٹ بھی نہیں اُتری تھی تو اس کی طرف سے پہلافائرکرنا جھوٹ کا پلندہ ظاہر ہوتا ہے اور اس کی گاڑی سے کوئی دھماکہ خیز مواد ملااور نہ ہی کوئی ایسے شواہد ملے جن سے ظاہر ہو کہ ذیشان کے ساتھ موٹر سائیکل پر اس کے دو ساتھی دہشت گرد موجود تھے ۔

کوئی ایسا ثبوت بھی نہیں پایا گیا کہ دونوں موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں کی طرف سے فائرنگ کی گئی، وہ فرارہوتے بھی دکھائی نہیں دیئے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سانحہ ساہیوال کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے کی گئی دیگر کارروائیاں اور مقابلے بھی مشکوک بن گئے ہیں اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ اور آئی جی پنجاب پولیس خود ساہیوال پہنچے تو انہیں بھی کوئی ایسے شواہد نہیں دکھائے گئے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ سی ٹی ڈی اور کار سواروں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی سربراہ سمیت اعلی ٰافسروں میں بھی کھلبلی مچ گئی ہے کہ ان کی کارروائیوں کا بھانڈا پھوٹنے کا خدشہ ہے اور گرفتار کئے گئے سی ٹی ڈی کے اہلکار تفتیش کے دوران اپنا منہ نہ کھول دیں کہ یہ خونی آپریشن کس کے حکم پر کیا گیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق افسران خود کو بچانے کی خاطر اس تفتیش پر اثر انداز ہو سکتے ہیں تاکہ ان قاتل اہلکاروں کو بچایا جا سکے ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ گرفتار کئے جانے والے اہلکاروں کو ان کے افسروں نے حوصلہ دیا ہے کہ انہیں بچانے کے لئے ہرممکن کوشش کی جائے گی۔ ساہیوال میں سی ٹی ڈی کی جانب سے کی جانے والی اندوہناک کارروائی نے عوام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ترجمان سی ٹی ڈی نے اپنے بیان میں کہا کہ ذیشان کا ٹاسک جنوبی پنجاب تک بارودی مواد پہنچانا تھا۔ ذیشان نے جان کر خلیل کے خاندان کو لفٹ دی۔

خلیل کے خاندان کو ذیشان کے عزائم ، گاڑی کے دہشتگردوں کے زیر استعمال رہنے کا علم نہیں تھا۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر گاڑی کے شیشیے کالے تھے تو سی ٹی ڈی نے گاڑی کو روکا کیوں نہیں ؟ اور بالفرض اگر ذیشان نے گاڑی نہیں بھی روکی تو سی ٹی ڈی نے کار سوار افراد کو فائر کھولنے سے پہلے گاڑی کے ٹائرپر گولی مار کر گاڑی روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ اور سب سے بڑھ کر اگر گاڑی میں دہشتگرد بھی سوار تھے تو گاڑی کو گھیرا ڈال کر انہیں حراست میں کیوں نہیں لیا گیا؟ سی ٹی ڈی کا یہ بیان کہ گاڑی کے شیشے کالے ہونے کی وجہ سےپیچھے بیٹھے افراد نظر نہیں آسکے، انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے جسے سُن کر ہر شہری کا خون کھول گیا ہے۔

سی ٹی ڈی کو آخر فائرنگ کرنے اور کسی کو بھی جان سے مارنے کا اختیار کس نے دیا ؟ ان اختیارات کے غلط استعمال کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ یہ وہ تمام سوالات ہیں جن کے جوابات کسی کے پاس نہیں ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جو سوشل میڈیا پر اُٹھائے جا رہے ہیں۔ سی ٹی ڈی کی اس کارروائی کو مشکوک قرار دیا جا رہا ہے تاہم کارروائی سے متعلق حقائق جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد ہی معلوم ہو سکیں گے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں