مجھے چیف جسٹس ، حمزہ شہباز یا میاں شہباز سے انصاف کی اُمید ہے

مجھے عمران خان سے انصاف کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ والدہ ذیشان

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین پیر 21 جنوری 2019 15:51

مجھے چیف جسٹس ، حمزہ شہباز یا میاں شہباز سے انصاف کی اُمید ہے
لاہور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 21 جنوری 2019ء) : ساہیوال میں دو روز قبل سی ٹی ڈی کی مبینہ کارروائی میں چار افراد ہلاک ہوئے جس پر سی ٹی ڈی نے کئی متضاد بیانات جاری کیے ، سی ٹی ڈی کے متضاد بیانات نے معاملے کو مزید مشکوک بنا دیا ۔ پہلے بیان میں ہلاک افراد کو اغوا کار قرار دیا گیا، دوسرے بیان میں ہلاک ہونے والے چاروں افراد کو دہشتگرد جبکہ تیسرے وضاحتی بیان میں سی ٹی ڈی نے خلیل ، اس کی اہلیہ اور اس کی بیٹی کی ہلاکت کو انتہائی بد قسمت قرار دیا اور ڈرائیور ذیشان کو دہشتگرد قرار دے دیا۔

ذیشان کی والدہ نے اپنے بیٹے پر عائد تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انصاف کی اپیل کی۔ گذشتہ روز جب ذیشان کی میت گھر پہنچی تو ضعیف اور معذور والدہ کا کلیجہ منہ کو آگیا۔ اپنے بیٹے کی میت کے پاس بیٹھی والدہ انصاف کی منتظر تھی۔

(جاری ہے)

اُردو پوائنٹ کی ٹیم نے ذیشان کی والدہ سے ان کے بیٹے کی موت پر اظہار تعزیت کیا اور ان سے دریافت کیاکہ وہ کس سے انصاف کی اُمید رکھتی ہیں۔

جس پر انہوں نے جواب دیا کہ مجھے چیف جسٹس ، حمزہ شہباز یا پھر میاں شہباز شریف سے انصاف کی اپیل ہے۔ مجھے عمران خان سے انصاف کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ میرے بیٹے کو دہشتگرد کہا گیا تو پھر باقیوں کو کیوں مارا گیا ؟ عمران خان کا ایک وزیر ہے جو بار بار کہہ رہا ہے کہ مارے جانے والا دہشتگرد ہے۔ اُس کو تو عمران خان روک نہیں سکا تو انصاف کیا دے گا ؟ دکھی والدہ کا کہنا تھا کہ اب اگر کوئی میرے بیٹے کو دہشتگرد کہتا بھی رہے گا تو کہتا رہے کیونکہ میرا بیٹا تو مر گیا ہے۔

ہمارا دنیا میں کچھ بھی نہیں ہے۔ مقدمہ درج کروانے سے متعلق سوال کے جواب میں ذیشان کی والدہ نے کہا کہ میں فارغ ہو کر کسی سے مشورہ کروں گی اور مقدمہ درج کرواؤں گی۔ میں نے سُنا ہے کہ ایک مقدمہ درج ہو گیا ہے۔ میں معذور ہوں، چل نہیں سکتی ، میں سوچوں گی کہ کیا کرنا ہے۔ میرے میں اتنی ہمت نہیں کہ میں کچہریوں کے چکر لگاؤں ۔ میں غریب ہوں ، محنت کر کے اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر مجھے انصاف مل گیا تو میرا غم دور ہو جائے گا۔ ذیشان کی والدہ کی اُردو پوائنٹ سے خصوصی گفتگو آپ بھی ملاحظہ کیجئیے:

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں