ایم اے او کالج کے لیکچرار افضل محمود کی خُود کُشی کا معاملہ ، کالج انتظامیہ کی مبینہ غفلت اصل وجہ بنی

ہراسگی کا الزام غلط ثابت ہونے کے باوجود تصدیقی سرٹیفکیٹ جاری نہ کرنے کے باعث افضل محمود شدید ذہنی تناؤ کا شکار تھے میڈیا رپورٹس کے مطابق کالج پرنسپل ڈاکٹر فرحان عبادت نے بھی اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ انہوں نے نے کلیئرنس خط افضل کو جاری نہیں کیا

Muhammad Irfan محمد عرفان ہفتہ 19 اکتوبر 2019 15:33

ایم اے او کالج کے لیکچرار افضل محمود کی خُود کُشی کا معاملہ ، کالج انتظامیہ کی مبینہ غفلت اصل وجہ بنی
لاہور(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔19اکتوبر2019ء) لاہور کی مشہوردرس گاہ ایم اے اوکالج کے انگریزی کے لیکچرار افضل محمود نے ایک طالبہ کی جانب سے خود پر جنسی ہراسگی کا جھوٹا الزام لگائے جانے کے بعد9 اکتوبر 2019ء کو زہر کھا کر خُود کُشی کر لی تھی۔ اس الم ناک واقعے کے حوالے سے یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ متوفی لیکچرار افضل محمود کی درخواست کے باوجود کالج انتظامیہ نے انہیں ہراسگی کے اس الزام سے متعلق کلیئرنس سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا تھا۔

کالج انتظامیہ کی غفلت اور تاخیر کے باعث محمد افضل نے لوگوں اور گھر والوں کے طعنوں سے تنگ آ کر خود کُشی کر لی۔ محمد افضل کے ایک دوست نے ایک خط بی بی سی کو دکھایا جو اپنی موت سے ایک دن قبل انھوں نے اپنی سینیئر ساتھی پروفیسر ڈاکٹر عالیہ رحمٰن کو لکھا تھا۔

(جاری ہے)

پروفیسر عالیہ محمد افضل کے خلاف ایک خاتون طالب علم کو ہراساں کرنے کی انکوائری کرنے والی کمیٹی کی سربراہ تھیں۔

خودکشی کرنے سے ایک روز قبل ڈاکٹر عالیہ کے نام اپنے خط میں افضل محمود نے شکایت کی کہ انھیں ہراس کرنے کے الزام سے بری الذمہ قرار دینے کے باوجود ابھی تک انھیں تحریری طور پر کمیٹی کی طرف سے اس فیصلے سے آگاہ کیوں نہیں کیا گیا ہے۔بی بی سی کے مطابق انہوں نے اپنے اس خط میں لکھا ’یہ بات ہر طرف پھیل چکی ہے جس کی وجہ سے میں شدید ذہنی دباوٴ کا شکار ہوں۔

اور جب تک کمیٹی مجھے تحریری طور پر اس الزام سے بری نہیں کرتی میرے بارے میں یہ تاثر رہے گا کہ میں ایک برے کردار کا شخص ہوں۔ میری خواہش ہے کہ یا تو تحریری طور پر مجھے ان الزامات سے بری کرنے کا خط جاری کیا جائے یا انکوائری دوبارہ کر لی جائے تاکہ میرے علاوہ باقی اساتذہ جو طلبا کے ساتھ (پڑھائی کے معاملے میں) سختی کرتے ہیں یا انہیں امتحان میں کارکردگی کے مطابق نمبر دیتے ہیں نہ کہ دباوٴ کے تحت، انھیں بھی مستقبل میں اس طرح کے الزامات سے بچایا جا سکے۔

‘افضل محمود نے خط کے آخر میں لکھا کہ ’اگر کسی وقت ان کی موت ہو جائے تو ان کی تنخواہ اور اس الزام سے بریت کا خط ان کی والدہ کو دے دیا جائے۔“ڈاکٹر عالیہ کے مطابق انہوں نے انکوائری مکمل کرنے کے بعد انکوائری رپورٹ میں یہ لکھ دیا کہ افضل کے اوپر غلط الزامات لگائے گئے ہیں اور وہ معصوم ہیں۔ میں نے اپنی انکوائری رپورٹ میں یہ لکھا تھا کہ افضل بے قصور ہیں اور اس لڑکی کے کو وارننگ جاری کی جائے اور اسے سختی سے ڈیل کیا جائے۔

ڈاکٹر عالیہ نے بتایا کہ انہوں نے افضل سے بھی انکوائری کی اور اپنی تمام تر تحقیقات فائنڈنگز میں لکھ دی تھیں۔”ساتھ ہی ساتھ میں نے یہ بھی لکھا کہ اس معاملے کو خصوصی طور پر دیکھا جائے تاکہ آئندہ کوئی طالبہ کسی بھی استاد پر غلط الزام نہ لگائے آئے۔“ جب اُن سے سوال کیا گا کہ پھر افضل کو اس الزام سے بری الذمہ قرار کیوں نہیں دیا گیا؟تو اس پر انہوں نے کہا کہ ان کا مینڈیٹ اس معاملے کی تفتیش کر کے رپورٹ کالج پرنسپل کے حوالے کرنا تھا۔

انہوں نے کہا ’ہم نے اپنی رپورٹ مکمل کر کے تین ماہ قبل پرنسپل صاحب کو بھجوا دی تھی۔ اگلے مرحلے میں پرنسپل صاحب نے افضل کو ایک کلیئرنس لیٹر جاری کرنا تھا جس میں یہ لکھا جاتا کہ افضل بے قصور ہیں اور ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔‘ڈاکٹر عالیہ نے کہا کہ افضل نے مجھ سے جس سرٹیفیکٹ کا مطالبہ مرنے سے ایک دن پہلے کیا وہ جاری کرنا میرے اختیار میں نہیں تھا۔

ایسا صرف کالج پرنسپل ہی کر سکتے تھے۔ بی بی سی نے کالج کے پرنسپل فرحان عبادت سے اس حوالے سے دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’افضل میرے پاس آیا ہی نہیں اگر وہ آتا تو میں اسے لیٹر جاری کر دیتا۔“ جبکہ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر فرحان عبادت نے کہا کہ انکوائری رپورٹ مکمل ہونے کے بعد سے افضل نے ان سے کبھی بات نہیں کی جبکہ کہ افضل کو زبانی بتا دیا گیا تھا کہ وہ بے قصور ہیں اور ان کو کلیئر کیا جا چکا ہے۔

تاہم ڈاکٹر فرحان عبادت کے مطابق ’یہ معاملہ ڈاکٹر عالیہ نے حل کرنا تھا میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔‘ڈاکٹر فرحان کا کہنا ہے مجھے ڈاکٹر عالیہ نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ان بچوں کے خلاف بھی ایکشن لینا ہے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر عالیہ کے مطابق انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ان بچوں سے سختی سے ڈیل کیا جائے۔ڈاکٹر عالیہ رحمان کے مطابق ’میں نے افضل سے کہا کہ آپ ایک درخواست دے دیں کہ مجھے خط جاری کیا جائے میں وہ آگے تک پہنچا دوں گی۔

‘’8 اکتوبر کی دوپہر افضل میرے پاس آئے اس وقت میں کالج گیٹ سے گھر کے لیے نکل رہی تھی۔ انہوں نے مجھے ایک لیٹر دیا میں نے اس لیٹر کی پہلی تین چار لائنیں پڑھیں جس میں لکھا تھا کہ آپ مجھے کلیرنس لیٹر جاری کردیں میں نے وہ اپنی فائل میں رکھا اور میں چلی گئی۔‘تاہم اگلے دن جب میں کالج پہنچی تو مجھے پتا چلا کہ افضل نے خودکشی کرلی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’میری غلطی ہے کہ میں نے وہ لیٹر پورا نہیں پڑھا کیونکہ لیٹر کی آخری لائنوں میں لکھا تھا کہ میری تنخواہ میری والدہ کو دے دی جائے۔

میں اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ افضل کھبی اپنی جان بھی لے سکتا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ ہنستا کھیلتا رہتا تھا۔‘ڈاکٹر عالیہ کا کہنا ہے کہ ’افضل کی موت کے بعد میں نے پرنسپل صاحب کو وہ ایپلیکیشن دکھائی جو افضل نے مجھے دی تھی۔ انہوں نے مجھے کہا کہ یہ تو افضل نے آپ کو لکھا ہے تو آپ اس کو دیکھیں جبکہ میں ان سے کہا کہ سر میں کیسے دیکھ سکتی ہوں جب تک آپ مجھے اجازت نہیں دیتے لکھ کر۔

انہوں نے جواب دیا کہ کہا کہ چھوڑ دیں جب تک ضرورت نہیں پڑتی آپ صرف اپنے کاغذات مکمل رکھیں جب آپ سے کوئی مانگے تو دے دیجیے گا۔‘تاہم ڈاکٹر فرحان نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ ڈاکٹر عالیہ افضل کا لیٹر اس کی موت کے بعد لے کر ان کے پاس آئیں۔بی بی سی کی نامہ نگار کی جانب سے ڈاکٹر فرحان سے سوال کیا گیا کہ ’کیا تین مہینے میں میں آپ نے ان کیس کو فالو اپ کیا یا ان سٹوڈنٹس کے خلاف ڈسپلن کے تحت کوئی کارروائی کی یا افضل کی موت کے بعد آپ نے معاملے کی چھان بین کی؟ تو ڈاکٹر فرحان نے جواب دیا کہ ’نہیں یہ بات میرے ذہن ہی میں نہیں آئی کہ ایسا کرنا چاہیے۔

‘کالج پرنسپل ڈاکٹر فرحان عبادت نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ میں نے کلیئرنس خط افضل کو جاری نہیں کیا کیونکہ میں سمجھا کہ ڈاکٹر عالیہ نے افضل کو بتا دیا ہے۔ پرنسپل صاحب سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ تین ماہ کا وقت گزرنے کے بعد آپ نے اس کیس میں کیا کیا؟ جس پر وہ کسی قسم کا جواب نہ دے سکے۔
ایم اے او کالج کے لیکچرار افضل محمود کی خُود کُشی کا معاملہ ، کالج انتظامیہ ..
خود کشی سے قبل آخری خط کا عکس

متعلقہ عنوان :

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں