”بہت دیر کی مہرباں آتے آتے“

لیکچرار افضل محمود کی خُود کُشی کے مبینہ ذمہ دار پرنسپل ایم اے او کالج کی نااہلی کے لیے مراسلہ جاری کر دیا گیا سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کو جاری مراسلہ میں سفارش کی گئی ہے کہ ڈاکٹر فرحان عبادت یار خان کا رویہ ہتک آمیز اور گالم گلوچ والا ہے، اُنہیں عہدے سے نااہل کیا جائے

Muhammad Irfan محمد عرفان ہفتہ 19 اکتوبر 2019 16:50

”بہت دیر کی مہرباں آتے آتے“
لاہور(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔19اکتوبر2019ء) پروفیسر افضل محمود کی خود کُشی کا معاملہ اُردو پوائنٹ پر آنے کے بعد لگتا ہے جیسے محکمہ تعلیم بھی خوابِ غفلت سے بیدار ہو گیا ہے۔ اگرچہ اس بیداری سے پہلے معاشرے کے ایک معمار پروفیسر افضل محمود کالج انتظامیہ مبینہ غفلت کا شکار ہو کر دُنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ تاہم لگتا ہے کہ اُن کی ضائع ہونے والی زندگی کے لیے اب انصاف کا کوئی سامان پیدا ہو چکا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈائریکٹر کالجز لاہور کی شکایت پر ڈی پی آئی کالجز نے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کو مراسلہ جاری کر دیاجس میں کہا گیا کہ پرنسپل ایم اے او کالج ڈاکٹر فرحان عبادت یار خان کا محکمہ ہائر ایجوکیشن کے افسران کے ساتھ رویہ ہتک آمیز اور گالم گلوچ پر مبنی ہے، اُن کے رویئے کے باعث لاہور ڈویژن میں معاملات چلانے میں شدید دُشواری کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

پرنسپل مسائل اور دفتری امور میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں گالم گلوچ کرتے اور ہتک آمیز رویہ اپناتے ہیں۔ میڈیا کے مطابق اس مراسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پروفیسر افضل محمود کو جنسی ہراسگی کے معاملے میں کلیئرنس کا خط جاری نہ کرنا بھی پرنسپل کی غیر ذمہ داری کا ایک ثبوت ہے۔ اس لیے پرنسپل ایم اے او کالج کو عہدے کے لیے نااہل قرار دیا جائے ۔ میڈیا ذرائع کے مطابق اس مراسلے میں پرنسپل ڈاکٹر فرحان عبادت کو مستقبل میں کسی بھی انتظامی عہدے کے لیے نااہل قرار دینے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔

دُوسری جانب پنجاب لیکچرار ایسوسی ایشن کے صدر عبدالخالق ندیم نے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے بھی اس معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ متوفی پروفیسر افضل محمود کے معاملے میں ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ واضح رہے کہ پروفیسر افضل محمود کی جانب سے خود کُشی 9 اکتوبر کو کی گئی تھی، مگر یہ معاملہ میڈیا کی نظروں سے بھی اوجھل رہا۔ تاہم اُردو پوائنٹ پر خبر چلنے کے بعد اسے دیگر ذرائع ابلاغ نے بھی نمایاں کوریج دی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند گھنٹوں کے اندر ہی محکمہ تعلیم کے افسران کی جانب سے بھی نوٹس لے کر پرنسپل کے خلاف مبینہ طور پر کارروائی کی سفارش کی ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں