پروفیسر خودکشی معاملہ؛تحقیقاتی کمیٹی میں پرنسیپل کے قریبی لوگوں کی اکثریت ہونےکا انکشاف

پرنسیپل کے جاننے والے افراد کی انکوائری کمیٹی میں شمولیت انکوائری پر اثر انداز ہو سکتی ہے،اسی پرنسیپل کے رویے کیوجہ سے2012 میں 22 شعبوں کے سربراہ پروفیسر حضرات نے اجتماعی استعفی دئیے

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان منگل 22 اکتوبر 2019 17:07

پروفیسر خودکشی معاملہ؛تحقیقاتی کمیٹی میں پرنسیپل کے قریبی لوگوں کی اکثریت ہونےکا انکشاف
لاہور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔21 اکتوبر 2019ء) : لاہور کی مشہوردرس گاہ ایم اے او (محمڈن اینگلو اوری اینٹل) کالج کے انگریزی کے لیکچرار افضل محمود نے ایک طالبہ کی جانب سے خود پر جنسی ہراسگی کا الزام لگائے جانے کے بعد زہر کھا کر خُود کُشی کر لی تھی۔اس حوالے تحقیقاتی کمیٹی تحقیقات کر رہی ہے تاہم اس سے قبل یہ بات بھی سامنے آ چکی ہے کہ 8جولائی کو لڑکی نے ہراساں کرنے کی درخواست دی تھی، جب کہ 13جولائی کو انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں افضل محمود کو کلین چٹ دے دی تھی اس کے باوجود بھی ایسے کیا حالات تھے جنہوں نے پروفیسر افضل محمود کو خودکشی پر مجبور کیا؟کیا لڑکی نے اپنے مفادات کے لیے استاد پر ہراسگی کا الزم لگایا یا پھر کسی کے دباؤ میں آ کر کیا۔

ان سوالوں کے جوابات تحقیقاتی ٹیم بھی تلاش کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

اس حوالے سے مرحوم پروفیسر کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سارے معاملے کو دیکھنے کیلئے جو انکوائری کمیٹی بنائی گئی ہے اس میں پرنسپل کے جاننے والے افراد شامل ہیں جو انکوائری پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔پروفیسرز کمیونٹی کے ذرائع نے تحقیقاتی کمیٹی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے،یہاں پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اسی پرنسپل کے نامناسب رویے کی وجہ سے 2012 میں 22 شعبوں کے سربراہ پروفیسر حضرات اجتماعی استعفی دے چکے ہیں۔

22 میں سے 21 شعبوں کے سربراہوں نے پرنسپل ایم اے او کالج پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
، اسی حوالے سے سینئیر اینکر رائے ثاقب کھرل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا  کہ پروفیسر افضل محمود کے بعد ایک اور پروفیسر کو اسی کالج میں ہراسگی کے الزامات کی تحقیقات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔جب کہ کمیٹی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے پروفیسر افضل محمود کو کلین چٹ دے دی تھی اور تین ماہ قبل اس کی اطلاع پرنسپل کو دی۔

اینکر نے دعویٰ کیا ہے کہ خود کشی کرنے والے پروفیسر افضل محمود پرنسپل کے ذاتی انتقام کا شکار تھے۔
 
جب کہ مرحوم پروفیسر کے ساتھی پروفیسر نے اردو پوائنٹ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لڑکی کی جانب سے جو درخواست درج کروائی گئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کی اس نے خود نہیں لکھی بلکہ اس سے لکھوائی گئی ہے۔ درخواست میں لکھے گئے جملوں کی بناوٹ سے ظاہر ہے کہ یہ درخواست کسی استاد نے لکھوائی ہے،چونکہ میں خود اردو کا پروفیسر ہوں اس وجہ سے میں یہ معاملہ بخوبی سمجھتا ہوں۔تاہم لڑکی نے پروفیسر پر ہراسگی کا الزام کسی کے دباؤ کے تحت لگایا یا پھر کوئی اور وجہ تھی یہ بات تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد ہی واضح ہو سکے گی۔

متعلقہ عنوان :

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں