عالمی اداروں نے بھارت کو رہنے کے لیے بد ترین ملک قرار دے دیا

سی اسپیکٹر انڈیکس کی 2019 کے لیے خطرناک ترین ملکوں کی فہرست جاری، بھارت پانچویں نمبر پر موجود

Usama Ch اسامہ چوہدری اتوار 19 جنوری 2020 12:10

عالمی اداروں نے بھارت کو رہنے کے لیے بد ترین ملک قرار دے دیا
اسلام آباد (اردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین 19 جنوری 2020) : عالمی اداروں نے بھارت کو رہنے کے لیے بد ترین ملک قرار دے دیا، تفصیلات کے مطابق عالمی ادارے سی اسپیکٹر انڈیکس کی 2019 کے لیے خطرناک ترین ملکوں کی فہرست جاری کی ہے۔ اس فہرست کے میں برازیل پہلے، جنوبی افریقا دوسرے، نائجیریا تیسرے اور ارجیٹینا چوتھے نمبر پر موجود ہے۔ اس فہرست میں بھارت پانچویں نمبر پر موجود ہے۔

بھارت سکونت کے اعتبار سے انتہائی خطرناک ممالک میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ اس فہرست میں برطانیہ 12 ویں جبکہ امریکا 16 ویں نمبر پر موجود ہے۔ سی اسپیکٹر انڈیکس نے انسانی حقوق اور عام آدمی کے استحصال کو انڈیکس کا حصہ بنایا ہے۔ بچوں اور خواتین سے زیادتی کے واقعات بھی اس انڈیکس میں شامل ہیں۔ آزادی کے حقوق غصب کرنا، آزادی اظہار پر پابندی اور بنیادی حقوق سے محروم رکھنا بھی شامل ہیں۔

(جاری ہے)

بھارتی حکومت کا مقبوضہ کشمیر میں غاصبانہ قانون کرکہ بدترین لاک ڈاؤن جاری ہے۔ بھارت کا متنازعہ شہریت قانون، ہندوتوا کی ترویج اور اقلیتوں کے حقوق غصب کرنے کا باعث ہے۔ سی اسپیکٹر انڈیکس میں انسانی حقوق کے خلاف معاشرتی برائیوں پر مبنی تمام نکات کو شامل کیا گیا ہے۔ واضع رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھارتی فوج کے سابق سربراہ اور موجودہ چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت کے حالیہ بیان کی شدید مذمت کی ہے جس میں انہوں نے کشمیری نوجوانوں کیلئے نازی طرز کے عقوبت خانے قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق جنرل راوت نے نئی دلی میں ایک کانفرنس سے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ کشمیری نوجوانوں میں انتہا پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے جن کی نشاندہی کرکے انہیں انتہا پسندی ختم کرنے والے کیمپوں میں ڈالا جانا چاہیے ۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور کشمیری دانشوروں نے امریکی اخبار ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنرل راوت کے الفاظ سے انکشاف ہوا ہے کہ بھارتی فوج کی اعلیٰ قیادت کشمیری عوام کو کس نظر سے دیکھتی ہے اور یہ پریشان کن واقعات کے ایک نئے سلسلے کا باعث بن سکتا ہے۔

ممتاز کشمیر ی تاریخ دان صدیق واحد نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ جنرل راوت نے تعذیب خانے قائم کرنے کا عندیہ دیاہے ۔ سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر نور احمد بابا نے کہا کہ بھارت اب کشمیر میں تمام سیاسی اختلافات کو کچلنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے جسے سیاسی طریقے سے حل کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ایسے کیمپس قائم کرنے کی جس کا عندیہ جنرل راوت نے دیاہے۔

ممبئی سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن ساکت گوکھلے نے کہا کہ یہ پہلی دفعہ ہے کہ انہوں نے بھارت میں تعذیب خانوں کے بارے میں سنا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس اور دیگر آزادی پسند تنظیموں نے بھی اپنے بیانات میں پہلے ہی کہا ہے کہ انتہا پسندی کو ختم کرنے کے نام پر کشمیری نوجوانوں کو ان تعذیب خانوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔

دریں اثناء وادی کشمیر میں ہفتہ کو مسلسل 167ویں روز بھی بھارت کی طرف سے نافذ کردہ فوجی محاصرہ اور انٹرنیٹ پر پابندی بدستور جاری رہی۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ جموں خطے کے مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ سروسز کی بحالی اور وادی کشمیر میں براڈ بینڈسروسز کی فراہمی کے لیے 400مراکز قائم کرنے کے قابض حکام کے اعلان پر ابھی تک عملدرآمد دکھائی نہیں دے رہا۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں