پنجاب حکومت کانواز شریف کی ضمانت میں مزید توسیع نہ کرنیکا فیصلہ ،وفاقی حکومت کو آگاہ کر دیا گیا،(ن ) لیگ کی حکومتی فیصلے کی مذمت

جب کوئی مریض علاج کے سلسلے میں جاتا ہے تو وہ ہسپتال میں داخل ہوتا ہے لیکن اب تک نواز شریف کسی ہسپتال میں داخل نہیں ہوئے ایسے کوئی رپورٹس نہیں دی گئیں جن پر توسیع کے حوالے سے فیصلہ کیا جا سکے ‘ راجہ بشارت کی یاسمین راشد اور فیاض الحسن چوہان کے ہمراہ پریس کانفرنس حکومت کا فیصلہ سیاسی انتقام ہے ،نواز شریف کے علاج پر سمجھوتہ نہیں کرینگے، ڈاکٹرز کی ہدایات کے مطابق علاج جاری رکھیں گے ‘ شہباز شریف

منگل 25 فروری 2020 17:56

پنجاب حکومت کانواز شریف کی ضمانت میں مزید توسیع نہ کرنیکا فیصلہ ،وفاقی حکومت کو آگاہ کر دیا گیا،(ن ) لیگ کی حکومتی فیصلے کی مذمت
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 فروری2020ء) پنجاب حکومت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت میں مزید توسیع نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو اس فیصلے سے آگاہ کرنے کے لیے خط لکھ دیا۔جبکہ مسلم لیگ (ن) کے صدر و قائد حزب اختلاف محمد شہبازشریف نے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کوضمانت میں توسیع نہ دینے کے پنجاب حکومت کے فیصلے کی شدید مذمت اور اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب حکومت کا فیصلہ حکمرانوں کی کم ظرفی اور سیاسی انتقام کا ثبوت ہے،نوازشریف کے علاج پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، ڈاکٹرز کی ہدایات کے مطابق علاج جاری رکھیں گے ۔

صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے پنجاب کابینہ کے اجلاس کے بعد صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد اور وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی جانب سے ہم سے ملاقات کے لیے عطااللہ تارڑ تشریف لائے اور ہم نے ان سے تفصیلی بات کرتے ہوئے کہا کہ میڈیکل بورڈ کی تجاویز کی روشنی میں آپ معاملے کی وضاحت کریں۔

(جاری ہے)

عطااللہ تارڑ کی درخواست پر نواز شریف کے ڈاکٹر عدنان سے اسکائپ پر رابطہ ہوا تو ہم نے ان سے بھی یہی درخواست کی لیکن انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے ہم جو رپورٹس آپ کو بھیج چکے ہیں اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی رپورٹ موجود نہیں لہٰذاآپ جو بھی فیصلہ کرنا چاہتے ہیں وہ انہی رپورٹس کی روشنی میں کر لیں۔راجہ بشارت نے بتایا کہ اس کے بعد ہماری کمیٹی کے اجلاس ہوئے اور ڈاکٹرز سے تفصیلی مشاورت کے بعد کمیٹی نے مشترکہ فیصلہ کیا کہ نواز شریف کی ضمانت میں مزید توسیع نہیں ہو سکتی اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ابتدائی طور پر عدالت کا فیصلہ 8 ہفتے کے لیے تھا لیکن حکومت پنجاب کی جانب سے طلب کی گئی رپورٹس سمیت دیگر مراحل میں مزید 8 ہفتے گزر گئے ۔

انہوں نے کہا کہ ضمانت میں 16 ہفتے کی توسیع کے بعد حکومت پنجاب معاملے میں پیشرفت جاننے کی خواہاں تھی تاکہ اگر کوئی پیشرفت ہوئی ہے تو اس کی بنیاد پر ضمانت میں کوئی توسیع کی جا سکے۔انہوں نے کہا کہ جب کوئی مریض علاج کے سلسلے میں جاتا ہے تو وہ ہسپتال میں داخل ہوتا ہے لیکن اب تک نواز شریف کسی ہسپتال میں داخل نہیں ہوئے۔رانا ثنااللہ نے چند روز قبل کہا کہ نواز شریف کا علاج ہونے جا رہا ہے لیکن جب ہم نے ڈاکٹر عدنان سے دریافت کیا کہ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اگلے ڈیڑھ دو ہفتے میں اس کو لائن اپ کیا ہوا ہے اور کوئی حتمی تاریخ نہیں دے سکتے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر کہہ رہے ہیں کہ 24 تاریخ کو آپریشن ہونے جارہا ہے لیکن نہ آپریشن ہوا اور نہ ہی لندن سے کوئی اطلاع دی گئی ہے کہ کس تاریخ کو ان کے دل کا آپریشن ہونے جا رہا ہے۔یہ معاملے کو ٹالنے والی بات ہے اور حکومت پنجاب یہ معاملہ کابینہ میں لے کر گئی جس نے یہ فیصلہ کیا کہ درخواست ضمانت میں مزید توسیع نہ کی جائے کیونکہ بغیر ٹھوس ثبوت کے اس معاملے میں قانونی، طبی اور اخلاقی لحاظ سے ضمانت کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

انہوں نے کہا کہ ہم وفاقی حکومت کو پنجاب کابینہ کے فیصلے سے آگاہ کر رہے ہیں کہ پنجاب حکومت ضمانت میں توسیع نہیں کر رہی اور اب وفاقی حکومت نے آگے اس معاملے کو لے کر چلنا ہے کیونکہ یہ ضمانت بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کی تھی اور ٹرائل کورٹ بھی وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔اس سے قبل وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا 26 واں اجلاس ہواجس میں پنجاب کابینہ نے تمام جزئیات، معروضی حالات اور میڈیکل رپورٹس کو مدنظر رکھتے ہوئے متفقہ طور پر نواز شریف کی سزا کی توسیع و معطلی کے حوالے سے درخواست مسترد کی۔

پنجاب کابینہ کو دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ وزیراعلی کی ہدایت پر صوبائی وزرا ء راجہ بشارت اور ڈاکٹر یاسمین راشد کی سربراہی میں 11 فروری کو خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی لیکن میڈیکل بورڈ اور خصوصی کمیٹی کی طرف سے بارہا یاد دہانی کے باوجود مطلوبہ میڈیکل رپورٹس فراہم نہیں کی گئیں۔کابینہ کو مزید بتایا گیا کہ 19، 20 اور 21 فروری کو کمیٹی کے یکے بعد دیگرے تین اجلاس منعقد ہوئے اور 21 فروری کو مسلم لیگ (ن)کے رہنما عطااللہ تارڑ خود اور ڈاکٹر عدنان اسکائپ پر شریک ہوئے۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ نواز شریف کے نمائندوں نے نئی تصدیق شدہ میڈیکل رپورٹس جمع کرانے کے بجائے پرانی میڈیکل رپورٹس کو ہی حتمی قرار دینے پر اصرار کیا۔پنجاب کابینہ کے اجلاس کے دوران خصوصی کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئیں اور کابینہ نے نواز شریف کی درخواست برائے توسیع و معطلی سزا کو اتفاق رائے سے مسترد کردیا۔دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر و قائد حزب اختلاف محمد شہبازشریف نے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کوضمانت میں توسیع نہ دینے کے پنجاب حکومت کے فیصلے کی شدید مذمت اور اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب حکومت کا فیصلہ حکمرانوں کی کم ظرفی اور سیاسی انتقام کا ثبوت ہے،اسی پنجاب حکومت نے نوازشریف کے بیرون ملک علاج کے لئے ڈاکٹرز کی رپورٹ پر دستخط کئے تھے لیکن اب سیاسی انتقام کی بناپر اپنے ہی فیصلے کے خلاف فیصلہ دیا ۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کا یہ جھوٹ قابل مذمت ہے کہ نوازشریف کا علاج یہاں ممکن تھا،حکمرانوں کی کم ظرفی، کم ذہنی اور چھوٹے پن کا احساس تھا اس لئے عدالت گئے تھے ،نوازشریف کے علاج معالجے اور ٹیسٹ سے متعلق تمام رپورٹس طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق جمع کرائی گئیں ۔انہوں نے کہا کہ عوام کے سامنے فیل ہوجانے والے حکمرانوں کے پاس نوازشریف کی صحت پر سیاست کے سوا اور کچھ نہیں بچا ،ثابت ہوگیا کہ پنجاب حکومت سیاسی انتقام، حسد، بغض، تکبر اور ضد میں اندھی ہوچکی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ علاج کسی بھی انسان کا بنیادی انسانی، قانونی حق ہے ،تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کیاجارہا ہے جس نے پاکستان کوترقی دی ۔انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے ملک کو ساتویں جوہری قوت بنایا، ان کے خلاف انتقامی اقدام تاریخ میں سیاہ باب ہے ،نوازشریف کے علاج پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، ڈاکٹرز کی ہدایات کے مطابق علاج جاری رکھیں گے ،نوازشریف کے علاج کے اہم مرحلے پر رکاوٹ ڈالنا اقدام قتل کے مترادف ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں