خالصتان ریفرنڈم کی تیاریوں پر بھارت کی پریشانی

کورونا کے پیش نظر ممکن ہے ریفرنڈم کے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی کردی جائے دنیا کے غیرجانبدار اداروں کو ریفرنڈم کی مانٹرنگ کی دعوت دیں گے تاکہ کوئی ریفرنڈم کے نتائج پر انگلی نہ اٹھا سکے . اکالی سکھ راہنماﺅں کی گفتگو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 15 جون 2020 16:47

خالصتان ریفرنڈم کی تیاریوں پر بھارت کی پریشانی
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-میاں محمدندیم سے۔15 جون۔2020ء) بھارت دنیا بھر کی سکھ کمیونٹی کی جانب سے اگست میں خالصتان کے قیام کے ریفرنڈم کروانے کے اعلان سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے ‘خالصتان کے حق میں پر 6جون کو سری اکال تحت صاحب کے جتھ دار گیانی ہرپریت سنگھ (جن کا رتبہ مذہبی لحاظ سے اعلی ترین مانا جاتا ہے)نے امرتسرمیں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ خالصتان ہر سکھ کا خواب ہے ان کے اس بیان پر بھارت میں ان کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے اور پھانسی دینے جیسے مطالبات سامنے آئے جبکہ شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی پر مودی سرکار انہیں ہٹانے کے لیے دباﺅ ڈال رہی ہے.

اکال تحت کی جانب سے گیانی ہرپریت سنگھ کی سیکورٹی بڑھادی گئی ہے اور ان کی حفاظت کے لیے خصوصی اقدامات کیئے گئے ہیں‘ادھر خالصتان تحریک کینیڈا کی جانب سے بیان سامنے آیا ہے کہ خالصتان اور پاکستان کے تعلقات بالکل امریکہ اور کینیڈا کی طرح ہونگے جن کے درمیان نہ کوئی بارڈر، نہ ویزہ ہوگا دونوں ریاستوں کے درمیان فری تجارت اور مضبوط معاشی تعلقات ہونگے‘جس پر دہلی سرکار نے کینیڈا کو احتجاجی مراسلہ بھی ارسال کیا ہے مگر کینیڈین حکومت میں سکھوں کے اثرورسوخ کے باعث اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا .

سکھ راہنماﺅں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے سو سے زائد شہروں میں ریفرنڈم کروایا جائے گا تاکہ دنیا بھر میں آباد سکھ کمیونٹی کی رائے لی جا سکے کہ آیا وہ خالصتان کے حق میں ہیں یا نہیں‘انہوں نے کہا کہ ہم انڈیا کی طرف سے کشمیریوں پہ کئے جانے ظلم کی شدید مذمت کرتے ہیںہم کشمیر کا دکھ سمجھتے ہیں‘پچھلے سال کورونا کی وباءپھیلنے سے پہلے امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں تواتر کے ساتھ سکھوں اور کشمیریوں کے مشترکہ احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں جن میں اکثر بھارتی سفارت خانوں اور اقوام متحدہ کے دفاتر کے سامنے ہوئے جبکہ بھارتی وزیراعظم یا کسی دوسرے اعلی سرکاری عہدیدار کے ان ملکوں کے ددروں کے دوران بھی سکھ اور کشمیریوں نے احتجاجی مظاہرے کیئے.

سکھوں اور کشمیروں کے مشترکہ مظاہروں سے بھارتی حکومت سخت پریشان رہی ہے اور کورونا سے پہلے اس پر عالمی طاقتوں کی جانب سے دباﺅ بڑھنا شروع ہوگیا تھا . کشمیر کی طرح خالصتان کی تحریک بھی تقسیم ہند سے پہلے کی ہے‘خالصتان کی اصطلاح 1940میں ڈاکٹرویر سنگھ بھٹی نے قرارداد پاکستان کے بعد اسی طرزپر لکھی ایک دستاویزمیں استعمال کی تاہم ماسٹر تارا سنگھ نے1947میں پنڈت جواہرلال نہرو کی باتوں میں آکر ایک خودمختار صوبے کی شرط پر بھارت کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا جسے آج کی سکھ لیڈرشپ نہرو کا فراڈ قراردیتی ہے معاہدے کے تحت پنجاب ایک نیم خودمختار ریاست کی کی طرح ہونا تھا جس میں دفاع ‘کرنسی اور خارجہ پایسی کے علاوہ تمام تر اختیارات مشرقی پنجاب صوبہ کے پاس ہونا تھے.

تاہم تقسیم کے بعد پنڈت جواہر لال نہرواپنے وعدے سے مکر گئے 1950میں جب بھارتی آئین نئے سرے سے مرتب کیا گیا تو اس کے آرٹیکل25اے میں سکھ‘بدھ اور جین مت کو ہندوﺅں کی ہی شاخ قراردے کر ان کی الگ مذہبی شناخت تک چھین لی گئیں جس کے جواب میں سکھوں کی جانب سے پنجابی صوبہ تحریک کا آغازکیا گیا ‘پنجابی صوبہ تحریک کو دبانے کے لیے بھارتی حکومت نے تشددکا سہارا لیا جس کے دوران مشرقی پنجاب اور بھارت کے دوسرے علاقوں میں ہزاروں سکھ مارے گئے.

1980کی دہائی میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والا اکال تحت کے جتھ دار بنے تو شروع میں انہوں نے پرامن اندازمیں تحریک کو منظم کیا مگر بھارتی حکومت نے سازش کے تحت کچھ جاسوس ان کی تحریک میں شامل کردیئے جنہوں نے تحریک کو پرتشددبنانے میں اہم کردار اداکیا ‘بھارتی خفیہ اداروں اور ان جاسوسوں کی ملی بھگت سے سکھوں کی نسل کشی کا ایک نیا دور شروع ہوا جون1984میں جب بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی کا ارادہ کیا تو سنت جرنیل سنگھ نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ایک نمائندے کو بلاکر ایک آڈیو پیغام ریکارڈ کروایا کہ اگر دہلی سرکار گرفتار تمام سکھوں کو رہا کرکے سکھ قوم کے خلاف پرتشددکاروائیاں بند کردے تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کو تیار ہیں مگر اس کا مثبت جواب دینے کی بجائے بھارتی حکومت نے فوج کو گولڈن ٹیمپل پر بھاری توپ خانے کے ساتھ چڑھائی کا حکم دیدیا.

سکھ چاہتے تھے کہ وہ انڈین پنجاب میں ہریانہ، ہماچل پردیش، جموں کشمیر کا کچھ حصہ اور پاکستانی پنجاب کا کچھ حصہ ملا کر اپنا ایک الگ ملک بنائیں وہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پنجاب کے ٹکڑے کر دیئے جانے پہ شدید صدمے کا شکار ہوئے تاہم بھارتی مظالم نے ان کی تحریک کا رخ بدل کر دلی کی طرف کردیا. 1966 میں اندرا گاندھی نے پنجاب ری اورگنائزیشن ایکٹ پاس کر کے انڈین پنجاب میں ہریانہ اور ہماچل پردیش کو شامل کر کے چندی گڑھ کو اسکا مرکز قرار دے دیا‘جس کے جواب میں 1971میں نارتھ امریکہ اور برطانیہ میں آباد ہو جانے والے سکھوں نے اپنے اپنے شہروں میں تحریک خالصتان کی بنیاد رکھی‘ 1973 میں آنند پور صاحب مطالبہ پیش کیا گیا جس کے تحت سکھوں کے مذہبی اور سیاسی مقام کو ہندووں سے الگ کر کے سکھ ازم کے تحت مان دینے کا مطالبہ ہوا اور 1979 میں جگجیت سنگھ چوہان نے خالصتان نیشنل کونسل کی بنیاد رکھی.

1980 میں خالصتان کی آزادی کا اعلان کرکے اس کی جلاوطن حکومت بھی قائم کردی گئی‘ 1982 میں اکالی دل اور جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے دھرم ید مورچہ کی بنیاد رکھی تاکہ مل کر آنند پور صاحب مطالبہ کو زندہ کیا جا سکے‘ 1980 کی دہائی کا پہلا حصہ سکھوں کے لئے ایک سیاہ دور کی حیثیت رکھتا ہے اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کی وجہ سے سکھوں نے انتقام اور تشدد کا طریقہ اپنایا ہزاروں قتل اور گرفتاریاں ہوئیں۔

(جاری ہے)

یہاں تک کہ انڈین حکومت کی طرف سے پنجاب میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی.

1984 میں یکم سے 8جون تک آپریشن بلیو سٹار کے تحت نہ صرف ہزاروں سکھوں کو قتل کر دیا گیا بلکہ ان کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کی گئی‘ 31 اکتوبر کی 1984 آپریشن بلیو سٹار کا بدلہ لینے کے لئے اندرا گاندھی کو اس کے اپنے سکھ سیکیورٹی گارڈز نے قتل کر دیا جس پر پورے بھارت میں سکھوں کے خلاف آپریشن کا آغازکیا گیا جسے سکھ آج بھی ”سکھوں کی نسل کشی“کا آپریشن قراردیتے ہیں جس میں صرف دہلی میں 3ہزار سکھ گھروں کو جلادیا گیا جن میں اکثرکے مکین بھی گھروں کے ساتھ ہی جل کر خاکستر ہوگئے.

1985 میں حالات پہ قابو پانے کے لئے راجیو لونگووال معاہدہ ہوا جس کے تحت سکھوں کی سیاسی، مذہبی، معاشی اور سماجی حیثیت کو تسلیم کیا گیا تاہم آئین میں ترمیم نہیں کی گئی1985 میں سکھوں نے اپنے مطالبات پورے نہ ہونے پر ایئر انڈیا کی مانٹریال سے بمبئی جانے والی ایک فلائیٹ کو بم دھماکے سے اڑا دیا جس میں 329 مسافر مارے گئے‘ 1986 کے بعد پھر سے معاملات تشدد اور قتل و غارتگری کی طرف چل پڑے اور ملک سے باہر بھی لوگوں کو نشانہ بنایا جانے لگا‘ 2001 تک حالات بہت خراب رہے اور سکھوں نے شدت پسندی کا رویہ اپنائے رکھا.

2002 میں انڈیا نے الزام لگایا کہ پنجاب میں حالات کی خرابی کے اصل ذمہ دار پاکستان، کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ میں بسنے والے با رسوخ افراد ہیں جو دامے درمے سخنے سکھوں کی مدد کر رہے ہیں 2015 میں آپریشن بلیو سٹار کی اکتیسویں سالگرہ کے موقع پر 25 نوجوان سکھوں کی پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کے سانحے نے سکھوں کے غم و غصے کو ہوا دی. 2017 میں کینیڈا کے پرائم منسٹر جسٹن ٹروڈو کے دورہ بھارت پہ ان کے ساتھ سرد مہری کا مظاہرہ کیا گیا کیونکہ بھارتی حکومت کے خیال میں کینیڈا بھارت کو توڑنے کی سازش میں سکھوں کی حمایت اور مدد کرتا ہے برطانیہ‘کینیڈا اور دیگر ممالک میں بسنے والے اکالی سکھ راہنماﺅں کا کہنا ہے کہ ابھی تک ریفرنڈم کی تاریخ بدلنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا کورونا کی صورتحال کے پیش نظر ممکن ہے ریفرنڈم کے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی کردی جائے جیسے آن لائن ووٹنگ یا پوسٹل ووٹنگ شامل ہے‘ان کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کے غیرجانبدار اداروں کو ریفرنڈم کی مانٹرنگ کی دعوت دیں گے تاکہ کوئی ریفرنڈم کے نتائج پر انگلی نہ اٹھا سکے .


لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں