منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں شہباز شریف کی عبوری ضمانت مسترد ،

درخواست خارج ہونے پر کمرہ عدالت میں گرفتار، جسمانی ریمانڈکیلئے کل احتساب عدالت میں پیش کیاجائے گا

پیر 28 ستمبر 2020 16:15

منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں شہباز شریف کی عبوری ضمانت مسترد ،
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 28 ستمبر2020ء) لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر و سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی عبوری ضمانت مسترد کردی، نیب نے درخواست خارج ہونے پر شہباز شریف کو گرفتار کرلیا۔ عدالتی فیصلے کے بعد شہباز شریف کے وکلا نے درخواست ضمانت واپس لینے کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کرلیا، فیصلے کے فوری بعد نیب حکام نے شہباز شریف کو کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کرکے نیب ہیڈ کوارٹر منتقل کردیا۔

شہبازشریف کوجسمانی ریمانڈکیلئے (آج) منگل احتساب عدالت میں پیش کیاجائے گا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل دو رکنی بنچ نے شہباز شریف کی ضمانت درخواست پر سماعت کی۔

(جاری ہے)

عدالت عالیہ کے دو رکنی بنچ نے شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں پیر تک توسیع کی تھی۔ عدالتی سماعت پر شہباز شریف اپنے وکلاء اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز کے ہمراہ پیش ہوئے جبکہ نیب کی طرف سے پراسیکیوٹر فیصل بخاری پیش ہوئے۔

دوران سماعت شہباز شریف نے عدالت سے استدعا کی کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں جس پر فاضل بنچ نے کہا کہ کچھ رہ گیا ہے تو کہہ دیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ میں خطاکار انسان ہوں لیکن رب کی مہربانی سے پنجاب کے عوام کی خدمت کی، عاجزی سے کہتا ہوں کہ نیب کو ڈھائی سو سال لگ جائیں لیکن ایک دھیلے کی کرپشن نہیں ملے گی، میں نے قومی خزانے کا ایک ارب بچایا، اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کیے اور میرے فیصلے سے میرے بھائیوں اور میرے بچوں کاکاروباری نقصان ہوا۔

شہباز شریف نے کہا کہ قومی اسمبلی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے، گلگت بلتستان کے انتخابات ہونے والے ہیں، اگر کرپشن کی ہوتی تو واپس کیوں آتا، لندن میں رہ کر زندگی گزرتا، اپنے بزرگوں کی اتفاق فائونڈری بیچ کو 6 ارب روپے ادا کردیئے تھے، میں کوئی فرشتہ نہیں ہوں، انسان سے غلطی ہوجاتی ہے، میں نے اپنی تنخواہیں اتفاق ٹرسٹ کو نہیں دیں بلکہ گلاب دیوی ہسپتال کو عطیہ کیں، میں بہت خطا کار انسان ہوں مگر عوامی خدمت کی ہے۔

دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر فیصل بخاری نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ آشیانہ اقبال ہاؤسنگ سکیم میں شہباز شریف گرفتار ہوئے، آشیانہ اور رمضان شوگر ملز میں ضمانت ہوئی15جنوری 2019ء کو نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست کی۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ نیب کسی بھی کرپشن کی تحقیقات شروع کرسکتا ہے، دفعہ 18 ڈی کے تحت نیب از خود کارروائی کرسکتا ہے۔

نیب کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم سے ابھی تفتیش درکار ہے، بہت سی ایسے فیصلے موجود ہیں جو ہمارے موقف کی تائید کرتے ہیں، نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کے سامنے متعدد فیصلے پیش کرتے ہوئے کہا کہ درخواستگزار کے وکیل کی جانب سے تمام فیصلے جو پیش کیے گئے وہ گرفتاری کے بعد کے ہیں۔ درخواستگزار کے وکیل کا کہنا ہے کہ ریفرنس فائل اور تحقیقات ہو چکی لہذا گرفتاری نہیں بنتی۔

نیب وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ شہباز شریف کی حد تک تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں، نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ شہباز شریف کے خلاف سٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے شکایت موصول ہونے پر انکوائری شروع کی، شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں نے 2008ء سے 2018ء تک 9 کاروباری یونٹس قائم کیے ، 1990 میں شہباز شریف کے اثاثوں کی مالیت 21 لاکھ روپے تھی ، 1998 میں ان کے اور ان کی اولاد کے اثاثوں کی مالیت ایک کروڑ 8 لاکھ ہوگئی، 2018ء میں شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے اثاثوں کی مالیت بینامی کھاتے داروں ، فرنٹ مین کی وجہ سے 6 ارب کے قریب پہنچ گئی۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ نے کرپشن کرکے اس وقت 7 ارب سے زائد کے اثاثے بنا لیے ہیں جبکہ منی لانڈرنگ کیس میں لاہور ہائی کورٹ حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت مسترد کر چکا ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ شہباز شریف تحقیقات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کا ملک سے فرار ہونے کا خدشہ ہے، منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز اشتہاری قرار دئیے جا چکے ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ شہباز شریف اور دیگر اہل خانہ کے خلاف نیب منی لانڈرنگ کیس میں تمام قانونی تقاضے پورے کر رہا ہے، شہباز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں نے نو انڈسٹریل یونٹس سے دس برسوں میں اربوں کے اثاثے بنائے، تحقیقات کے مطابق شہباز شریف نے اپنے فرنٹ مین ، ملازمین اور منی چینجرز کے ذریعے اربوں روپے کے اثاثے بنائے۔ نیب پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف نے متعدد بے نامی اکاؤنٹس سے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی۔

پراسیکوٹر نے بتایا کہ شہباز شریف نی96 ایچ بلاک کے نجی گھر کو وزیراعلیٰ ہاؤس ظاہر کیا اور اس کے تمام اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کئے جاتے رہے جبکہ ان کی اہلیہ نصرت شہباز گھریلو خاتون تھیں، انہوں نے کوئی کاروبار نہیں کیا، شہباز شریف تحائف دیتے رہے۔نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے استدعا کی کہ شہباز شریف کی درخواست ضمانت ناقابل سماعت ہے اسے مسترد کیا جائے۔

قبل ازیں درخواستگزار شہباز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ٹی اے ڈی اے اور بیرون ممالک دورہ کے اخراجات وصول نہیں کیے، شہباز شریف کوجیل بھیجنے کا کوئی فائدہ نہیں جبکہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر جیل بھیجنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، شہباز شریف کے وکیل نے شہباز شریف کے ادوار میں کئے گئے کاموں کی تفصیلات جمع کروا دیں اور موقف اختیار کیا کہ شہباز شریف ابتک 1 ہزار ارب روپے قومی خزانے کا بچا چکے ہیں ،شہباز شریف نے آج بطور ممبر اسمبلی تنخواہ تک وصول نہیں کی، شہباز شریف سیف سٹی پراجیکٹ میں بھی قومی خزانے کے کروڑوں روپے بچا چکے ہیں،اگر عدالت چاہے اور اجازت دے تو ہم یہ ساری تفصیلات بتا سکتے ہیں۔

درخواستگزار کے وکیل نے کہا کہ نیب نے ابتک جتنے شریک ملزمان کے بیانات ریکارڈ کئے اس میں میرے موکل کا ملوث ہونا شامل نہیں ہو سکا، یہ بتائیں کہ شہباز شریف نے کوئی جائیداد وغیرہ خریدی ہو، یہ راشد کرامت کو بے نام دار کہتے ہیں۔ وکیل شہباز شریف نے کہا کہ منی لانڈرنگ میں بھی شہباز شریف کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں ہے، کسی گواہ نے نہیں کہا کہ شہباز شریف نے منی لانڈرنگ کی۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ26 کروڑ 90 لاکھ کے اثاثے شہباز شریف کے ہیں، 2009ء سے لے کر 2018 ء تک بزنس ٹیکس دیتا رہاہوں، اسے نیب خرچ مانتے ہیں، آمدن نہیں مانتے، زرعی آمدن پر ٹیکس ادا کرتے رہے ہیں۔ شہباز شریف کے وکلاء وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ عبوری ضمانت کنفرم کی جائے۔ فریقین کے وکلاء کے تفصیلی دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے شہباز شریف کی عبوری ضمانت درخواست خارج کردی۔

عدالت عالیہ کے روبرو درخواست گزار شہباز شریف نے دائر ضمانت درخواست میں چیئرمین نیب سمیت دیگر کو فریق بنایا اور موقف اختیار کیا تھا کہ 1972ء میں بطور تاجر کاروبار کا آغاز کیا اور ایگری کلچر، شوگر اور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں اہم کردار ادا کیا، درخواست گزار شہباز شریف نے موقف اختیار کیا کہ سماج کی بھلائی کیلئے 1988ء میں سیاست میں قدم رکھا،نیب نے آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس بنایا ہے، شہباز شریف نے درخواست میں الزام عائد کیا ہے کہ انکوائری میں نیب کی جانب سے لگائے گئے الزامات عمومی نوعیت کے ہیں، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ2018ء میں اسی کیس میں گرفتار کیا گیا تھا اس دوران بھی نیب کے ساتھ بھر پور تعاون کیا تھا۔

شہباز شریف نے درخواست میں کہا کہ 2018ء میں گرفتاری کے دوران نیب نے اختیارات کے ناجائز استعمال کا ایک بھی ثبوت سامنے نہیں رکھا، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ نیب ایسے کیس میں اپنے اختیار کا استعمال نہیں کرسکتا جس میں کوئی ثبوت موجود نہ ہو، شہباز شریف نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ میں تواتر سے تمام اثاثے ڈکلیئر کرتا آ رہا ہوں، منی لانڈرنگ کے الزامات بھی بالکل بے بنیاد ہیں۔

درخواست گزار نے کہا ہے کہ نیب انکوائری کے دوران اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے اختیارات استعمال نہیں کر سکتا، شہباز شریف نے درخواست میں کہا کہ نیب انکوائری دستاویزی نوعیت کی ہے اور تمام دستاویزات پہلے سے ہی نیب کے پاس موجود ہیں۔درخواست میں عدالت عالیہ سے استدعا کی گئی کہ نیب کے پاس زیرالتواء انکوائری میں گرفتار کئے جانے کا خدشہ ہے لہذا ضمانت منظور کی جائے۔

شہباز شریف کی پیشی کے موقع پر کمرہ عدالت میں مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال ،رانا ثناء اللہ، ملک پرویز، خلیل طاہر سندھو ،سابق ایم پی اے شمائلہ رانا، سائرہ افضل تارڑ، عظمیٰ بخاری ،ڈاکٹر سمینہ مطلوب، غزالی سلیم، عمران گورایہ، عطااللہ تاڑر سمیت دیگر لیگی رہنما موجود تھے۔ ہائیکورٹ کے باہر لیگی کارکنان نے شہباز شریف کی ضمانت خارج ہونے پر نعرہ بازی کی۔ اس موقع پر ہائیکورٹ کے اندر اور باہر چاروں اطراف میں سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات کئے گئے تھے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں