آمدن سے زائد اثاثہ جات ،منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی عبوری ضمانت کی درخواست مسترد ،نیب نے گرفتار کرلیا

شہبا ز شریف کے وکلاء کے بعد نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دئیے ، دو رکنی بنچ نے فریقین کے وکلاء کے دلائل کے بعد ضمانت مسترد کر دی گرفتاری کی اطلاع ملتے ہی کارکنوں کے حکومت ،نیب کیخلاف نعرے ، مال روڈ سمیت دیگر اہم شاہراہوں ،عمارتوں کے باہر پولیس تعینات پارٹی کے مرکزی رہنما اور اراکین اسمبلی بھی شہباز شریف سے اظہار یکجہتی کیلئے کمرہ عدالت میں موجود رہے

پیر 28 ستمبر 2020 16:53

آمدن سے زائد اثاثہ جات ،منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی عبوری ضمانت کی درخواست مسترد ،نیب نے گرفتار کرلیا
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 ستمبر2020ء) لاہور ہائیکورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں مسلم لیگ (ن)کے صدر محمد شہباز شریف کی عبوری ضمانت کی درخواست مسترد کردی جس کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب ) نے شہباز شریف کو احاطہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا، شہباز شریف کی گرفتاری کی اطلاع ملتے ہی کارکنوں نے حکومت اور نیب کے خلاف شدید نعرے بازی کی ، کسی بھی نا خوشگوار واقعہ سے نمٹنے کیلئے مال روڈ سمیت دیگر اہم شاہراہوں اور عمارتوں کے باہر پولیس کی بھاری نفری کو تعینات کر دیا گیا ۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے شہباز شریف کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں عبوری ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔

(جاری ہے)

دوران سماعت مسلم لیگ (ن)کے صدر کی طرف سے ان کے وکلا ء امجد پرویز اور اعظم نذیر تارڑ پیش ہوئے جبکہ قومی احتساب بیورو (نیب )کی طرف سے فیصل بخاری اور عثمان راشد چیمہ دلائل کے لیے موجود تھے۔

شہباز شریف خود بھی ذاتی حیثیت میں موجود تھے جبکہ پارٹی کے مرکزی رہنما اور اراکین اسمبلی بھی ان سے اظہار یکجہتی کیلئے کمرہ عدالت میں موجود رہے ۔ شہباز شریف کے وکیل امجد پرویزنے دلائل میں کہا کہ ریکارڈ پر ہے نیب نے افسانوی کہانی بنائی، پتہ نہیں یہ کیس کیوں بنایا گیا، ریفرنس دائر ہوچکا اور تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں، اب گرفتاری کی کیا وجوہات ہیں۔

شہباز شریف نے عدالت سے چند گزارشات کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا آپ سے چند منٹ چاہیے، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ آپ کے وکیل دلائل دے رہے ہیںجو رہ جائے وہ آپ بتا دیجئے گا۔وکیل شہباز شریف نے کہا کہ پراسیکیوشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثابت کرے پبلک آفس استعمال کر کے پیسہ بنایا گیا۔ فاضل عدالت نے کہا آپ یہ تمام دلائل پہلے دے چکے ہیں ۔امجد پرویز نے کہا کہ جو بات میںکر رہا ہوں یہ کیس کے میرٹ کی بات ہے، گرفتاری کے 6 ماہ بعد بری ہو جاتے ہیں تو ریاست کی ساکھ کیا رہ جاتی ہے۔

امجد پرویز نے سوال کیا کہ عدالت کے طلب کرنے پر پیش ہوگئے پھر گرفتاری کا کیا جواز ہی شہباز شریف کا نام اسی کیس میں ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا، لاہورہائیکورٹ نے شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالناغیرقانونی قراردیا، قانون کے مطابق پراپرٹی بنانا کوئی جرم نہیں ۔دوران سماعت امجد پرویز نے کہا کہ شریف گروپ آف کمپنیز میں شہباز شریف کا کوئی عہدہ نہیں، کمپنیزکے ریکارڈ سے شہباز شریف کا کوئی لینا دینا نہیں ، منی لانڈرنگ کے کیس میں جرم کا تعلق ظاہر ہونا ضروری ہے، فائدہ حاصل کرنے اورمعاونت کرنے میں فرق ہے، اختیارات سے تجاوز ،اعانت جرم کا تعلق ظاہر ہونا لازم ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہبازشریف پر26کروڑ 90لاکھ روپے کے اثاثوں کاالزام ہے، ٹیکس ریٹرنزکو نیب مانتا ہے مگر اس پر خرچ نہیں مانتا، زرعی آمدن پرہرسال ٹیکس ادائیگی کی جاتی رہیں ، دوسری آمدن تنخواہ کو ظاہر کیا گیا، تیسری آمدن کاروبار ہے ،ٹیکس واجبات ادائیگی کی گئی، بیوی سی70لاکھ روپے کا گفٹ شہبازشریف کوملا اور 2018تک اپنی تمام ٹیکس ریٹرنزجمع کراتے رہے ۔

.امجد پرویز نے کہا کہ کسی جائیدادکونیب حکام نے وزٹ کرکے چیک نہیں کیا، نیب صرف ٹیکس ریٹرنز پر تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتا ہے، ٹائی کوٹ پہن کر ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر غیرجانبدارانہ تحقیقات ممکن نہیں، عدالت تسلی کیلئے لوکل کمیشن مقررکرکے جائیدادکامعائنہ کراسکتی ہے، کسی کمپنی سے ایک دھیلا بھی شہباز شریف کے اکائونٹ میں نہیں آیا ، ایک دھیلا بھی آیا ہو تو اپنی درخواست ضمانت واپس لے لوں گا۔

امجد پرویز نے کہا کہ ان کے موکل کے بچے ان کے زیر کفالت نہیں ہیں، سپریم کورٹ نے زیر کفالت ہونے کے معاملے میں پاناما کیس میں تشریح کر دی ہے۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی اہلیہ 2004 سے فائلر ہیں جبکہ سلمان شہباز اور حمزہ شہباز 1996 سے اور بیٹیاں جویریہ اور رابعہ بھی 2007 سے فائلر ہیں۔امجد پرویز کے مطابق نیب کے منی لانڈرنگ کے 58 والیمز میں شہباز شریف کے خلاف ایک بھی دستاویزی ثبوت نہیں جبکہ ایف بی آر، ایس ای سی پی، ریونیو سمیت کسی ادارے کے ریکارڈ کے مطابق شہباز شریف بے نامی دار نہیں ،کسی ایک شخص کا بھی 161 کا بیان صفحہ مثل پر موجود نہیں ہے، منی لانڈرنگ ریفرنس میں نیب نے 4 وعدہ معاف گواہ بنائے ہیں تاہم کسی ایک نے بھی شہباز شریف کے خلاف بیان نہیں دیا۔

شہباز شریف کے وکیل نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا شہباز شریف اپنے اعمال کے جوابدہ ہیں، بچوں کے نہیں، بیوی نے 70 لاکھ کا تحفہ دیا جسے قانونی طریقے سے حاصل کیا، جس کے بعد شہباز شریف کو بات کرنے کی اجازت دینے کی استدعا کی گئی۔شہباز شریف نے عدالت میں بیان میں کہا کہ میں بہت شکر گزار ہوں آپ نے وقت دیا ، ایک خطاکار انسان ہوں، ہم اللہ سے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، 1997اور 2013 ،2018 میں پنجاب کے عوام کی خدمت کی، بے شمار کام اور ہونے والا ہے، کتابچہ پیش کیا ہے اس کو دہرائوں گا نہیں، ہم نے پروکیورمنٹ میں ایک ہزارارب پاکستان کے بچائے، اڑھائی سوسال بھی لگ جائیں مجھ پرکرپشن ثابت نہیں کرسکیں گے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اورنج لائن میں بولی لگوائی حالانکہ بولی کاقانون اجازت نہیں دیتاتھا، میرا ضمیر مجھے مجبور کررہا تھا،اورنج لائن میں 600 ملین روپے بچائے، مجھ پر الزام لگایا گیا ہے کہ میرے بے نامی اثاثے ہیں، اختیارات سے تجاوز نہیں کیا، اگر ایسا کیا ہوتا تو پھر اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے تھی، سندھ کے مقابلے میں گنے کی قیمت زیادہ رکھی، سبسڈی بھی نہیں دی، اس سے میرے بچوں اورعزیزوں کی شوگرملز کو نقصان ہوا۔

شہباز شریف نے کہا کہ والد بھائیوں نے 1940 میں کام شروع کیا، 1972 کو ہمارے ادارے قومیائے گئے ، میرے والد نے 18 ماہ میں 6 فیکٹریاں لگائیں ، سیاسی انتقام کا نشانہ بنے مگر اس کی بات نہیں کرنا چاہتا، سندھ حکومت نے شوگر ملز کو ساڑھے 9 روپے فی کلو پرمزید سبسڈی دی، بیٹے کی مل نے شوگر ایکسپورٹ کی تو 23 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ شوگر ملزمیں ایتھنول مولیسز سے بنتا ہے، میں نے 2011 میں 2 روپے ایکسائز ڈیوٹی لگا دی، شوگرملز نے لاہور ہائیکورٹ میں ایکسائز ڈیوٹی کو چیلنج کر دیا تھا، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو واضح کہا تھا ایکسائز ڈیوٹی کا دفاع کریں، میرے بیٹے مجھے کہتے تھے ایکسائز ڈیوٹی نہ لگائیں مگرمیں نہیں مانا، اس وقت پورے پاکستان میں کہیں بھی ایکسائز ڈیوٹی نہیں تھی۔

شہبازشریف نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے 2 روپے کے حساب سے ایکسائز ڈیوٹی ختم کر دی، میری سچائی کی گواہی پی ٹی آئی حکومت کا خط دے رہا ہے، میرے والد نے قرضہ لیکر کام شروع کیا، بینکوں میں ہمیں انجینئرڈ ڈیفالٹ کروایا گیا، خطا کار انسان ہوں مگر اس الزام سے بہت تکلیف ہوئی، تینوں بھائی، بہن کے درمیان بٹوارہ فرگوسن کمپنی کے ذریعے کرایا ، اللہ کے سامنے کہوں گا تین ادوار کی خدمت پرصلہ بخش دے۔

شہباز شریف نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے مجھے گرفتار کر کے زبان بندی کرنا چاہتے ہیں، نیب یہاں موجود ہے جنہوں نے کہا تحقیقات میں آپ کی ضرورت نہیں، اللہ جب مجھے پوچھے گا کہ تم نے دنیامیں کیا کیا ، میں کہوں گا میں نے پنجاب کے عوام کی خدمت کی، پنجاب میں ہسپتال بنوائے،تعلیمی ادارے بنوائے،اللہ سے عرض کروں گا اسی کے صدقے مجھے معاف کر دیں۔

شہباز شریف نے مزید کہا کہ حلف پر کہتا ہوں نیب نے کہا کہ تفتیش مکمل ہوگئی ، حکومت میری زبان بندی چاہتی ہے، قومی اسمبلی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے، گلگت بلتستان انتخابات ہونے والے ہیں، کرپشن کی ہوتی تو واپس کیوں آتا، لندن میں رہ کر زندگی گزارتا۔شہبازشریف سے متعلق عبوری ضمانت کیس میں نیب پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ آشیانہ اقبال ہائوسنگ میں شہبازشریف گرفتارہوئے، آشیانہ اوررمضان شوگرملزکیس میں ضمانت ہوئی، 15 جنوری 2019 کو نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست کی، محب وطن شہری کی درخواست پرکارروائی کی بات کی گئی، نیب کسی بھی کرپشن کی تحقیقات شروع کرسکتا ہے۔

نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ 23 اکتوبر 2018کو انکوائری کی منظوری دی گئی، شہبازشریف سمیت دیگرپرمنی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا، شہبازشریف کی ضمانت پر رہائی کے بعد 3 اپریل 2019 کو انکوائری منظور ہوئی، 3 اپریل 2019 کو 7افراد کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے، حمزہ، سلمان، فضل داد، قاسم قیوم، محمد عثمان، مسرور انور و دیگر کے وارنٹ جاری ہوئے۔

وکیل نیب نے بتایا کہ انکوائری کی سطح پر کسی بھی ملزم کے وارنٹ جاری نہیں کیے گئے، تمام فیصلے جو پیش کیے گئے وہ گرفتاری کے بعد کے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ریفرنس فائل ہو چکا ہے اور تحقیقات ہو چکی لہٰذاگرفتاری نہیں بنتی، شہبازشریف کی حد تک تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں، ٹھوس وجوہات بتائوں گا کہ حراست کیوں چاہیے۔نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف،بیٹوں نے 9 انڈسٹریل یونٹس سے اربوں کے اثاثے بنائے، شہبازشریف نے فرنٹ مین، ملازمین، منی چینجرز کے ذریعے اربوں کے اثاثے بنائے، ان نے متعدد بے نامی اکائونٹس سے اربوں کی منی لانڈرنگ کی، شہباز شریف کی درخواست ضمانت ناقابل سماعت ہے مسترد کی جائے۔

نیب وکیل کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کیخلاف فنانشل مانیٹرنگ یونٹ رپورٹ پرانکوائری کی، منی لانڈرنگ کیس میں ہائیکورٹ حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت مسترد کرچکا ہے، شہباز شریف تحقیقات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کے کا ملک سے فرار ہونے کا خدشہ ہے، شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز اشتہاری قرار دئیے جا چکے ہیں اور نیب منی لانڈرنگ کیس میں تمام قانونی تقاضے پورے کر رہا ہے۔

1990 میں شہبازشریف کے اثاثوں کی مالیت21 لاکھ تھی، 1998میں ان کے اور ان کی اولاد کے اثاثوں کی مالیت ایک کروڑ 8 لاکھ ہوگئی۔نیب وکیل نے مزید بتایا کہ 2018میں شہبازشریف ،اہل خانہ کے اثاثوں کی مالیت 6 ارب کے قریب پہنچی ، 6 ارب کی مالیت بے نامی کھاتے داروں، فرنٹ مین کی وجہ سے پہنچی، شہبازشریف اور اہل خانہ نے کرپشن سے 7 ارب کے اثاثے بنالیے ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ گواہان کے بیانات رکھوں گا جو کبھی ملک سے باہر نہیں گئے، ملک سے باہر نہیں گئے مگر ان کے نام سے ٹی ٹی منگوائی گئیں، مشتاق چینی کا کہنا تھا 60 کروڑ روپے بلیک سے سفید کرانا ہے، ٹی ٹی کے ذریعے 50 کروڑ روپے اکائونٹ میں آئے جو سلمان شہباز کو منتقل کئے گئے، شہباز شریف کا کاروبار نہیں تھا تو اتنی رقم کہاں سے آئی۔

نیب وکیل نے کہا کہ جلاوطنی میں جو فلیٹس لیے ان کے بارے میں بھی بتائوں گا، 2004 کی تفصیل یہ بتا نہیں رہے، پھر اچانک 2017 میں اکائونٹ میں اربوں روپے آگئے، ان کی بیوی کوئی کاروباری خاتون نہیں تھیں، ان کے اکائونٹ میں بھی پیسے آئے، 1995 میں سلمان شہباز کی ڈیکلیئرڈ انکم 11 لاکھ 86 ہزار 725 روپے تھی، 2004 میں یہ جلاوطنی میں تھے تو فلیٹ کہاں سے آگئے، 2008 میں سلمان کے اثاثوں میں اضافہ ہوا ، جب شہباز شریف وزیراعلی تھے، جب سلمان شہباز نوجوان تھا تو اس وقت اتنا بزنس کیسے اور پیسہ کیسے کمالیا۔

نیب پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ 96ایج ماڈل ٹائون گھر کو وزیراعلی ہائوس ڈکلیئر کیا گیا، اس کے تمام خرچ سرکاری خزانے سے ادا کئے گئے ۔ جس پر جسٹس فاروق حیدر کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے علم میں ہے یآپ امجد پرویز کے دلائل کا جواب دینا چاہیں تودیں، ویسے آپ جو کہنا چاہیں کہہ سکتے ہیں ہم آپ کو سنیں گے۔نیب کے وکیل نیب کا کہنا تھا کہ علی احمد اور نثار احمد 2009 سے وزیراعلی ہائوس کے ملازم تھے، علی احمد اور نثار احمد کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گی، ان ملازمین نے دو کمپنیاں بنا رکھی تھیں۔

وکلا کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے شہباز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔عدالتی فیصلے کے بعد شہباز شریف کے وکلا ء نے درخواست ضمانت واپس لینے کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کرلیا۔عدالتی فیصلے کے فوری بعد نیب حکام نے شہباز شریف کو کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا اور انتہائی سختی سکیورٹی میں نیب ہیڈ کوارٹر منتقل کردیا گیا۔شہباز شریف کی پیشی کے موقع پر لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد عدالت کے باہر موجود تھی، عدالت کی جانب سے ضمانت میں توسیع نہ ملنے اور نیب کی گرفتاری کے بعد لیگی کارکن مشتعل ہوگئے اور احاطہ عدالت میں شدید نعرے بازی کی۔

اس موقع پر پولیس کی جانب سے سکیورٹی کے بھی انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے اور اینٹی رائٹ فورس کے دستوں کو لاہور ہائیکورٹ کے اندر اور اطراف میں تعینات کیا گیا ۔بعدازاں مال روڈ سمیت دیگر اہم شاہراہوں اور عمارتوں کے باہر بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ۔ پولیس کی طرف سے نیب کی عمارت کے باہربھی سکیورٹی سنبھال لی گئی ۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں