آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام 13ویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز پہلا اجلاس

”اردو نظم۔ سوبرس کا قصہ“ کے عنوان سے منعقد

جمعہ 4 دسمبر 2020 18:04

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام 13ویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز پہلا اجلاس
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 دسمبر2020ء) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام 13ویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز پہلا اجلاس ”اردو نظم۔ سوبرس کا قصہ“ کے عنوان سے منعقد ہوا، اجلاس میں ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ”خواتین نظم نگار۔ایک صدی کا جائزہ“، تنویر انجم نے ”مابعد جدید حسیت، نثری نظم اور نئی نسل“، نعمان الحق نے لاہور سے آن لائن ”اردو نظم کے متنوع رنگ“ جبکہ نجیبہ عارف نے اسلام آباد سے آن لائن ”اردو نظم پر نائن الیون کے اثرات“ پر گفتگو کی۔


ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ”خواتین نظم نگار۔

(جاری ہے)

ایک صدی کا جائزہ“ پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ خواتین نظم نگار پر سو برس کا طویل قصہ حقیقتاً بہت طویل ہے جس پر بات کرنا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہوگا، اس صدی کا یہ عرصہ 1920ئ سے شروع ہوتاہے جس میں خواتین نے اعلیٰ درجے کی شاعری کی، اس صدی کو تجربے کی صدی بھی کہا جاسکتا ہے، تقسیم وطن سے پہلے تک نظم کو شاعری میں اہمیت نہیں دی گئی اس دور کی شاعرات کا ذکر صرف تذکروں میں ملتا ہے مگر تاریخ میں نہیں، انہوں نے کہاکہ ا±ردو میں شاعرات نظموں کی طرف زیادہ مائل تھیں، سو برس کی صدی میں جہاں مختلف شاعرات بہت اہم رہیں ان میں زاہدہ خان ، رابعہ پنہاں، بلقیس جمال، خورشید آرائ بیگم اور دیگر شامل تھیں،


ادا جعفری وہ پہلی شاعرہ ہیں جنہوں نے عورت کی شناخت کو اپنی نظموں میں واضح کیا، انہوں نے کہاکہ زہرا نگاہ جدید شاعری کا معتبر حوالہ ہیں ان کی نظموں پر آصف فرخی کی رائے بہت اہم ہے، زہرا نگاہ کی شاعری بہت حساس موضوعات پر ہے اور ان کی یہ سب نظمیں اجتماعی غم کی عکاس ہیں، انہوں نے کہاکہ فہمیدہ ریاض ہمارے عہد کی پہچان بن گئی ہیں انہوں نے بھی اپنے اظہار کے لیے نظم ہی کا راستہ اختیار کیا انہوں نے عورت کو اس کی پوری سچائی اور حقوق سے آگاہ کیا جبکہ کشور ناہید نے اپنی شاعری کے ذریعے ان سماجی رویوں پر اظہار کیا جس میں خواتین کے حقوق غصب کیے گئے، 1970ئ کی دہائی میں شاعرات کی نسل نے تیزی سے آگے بڑھنا شروع کیا جس میں نمایاں نام پروین شاکر کا ہے جنہوں نے اپنے مجموعہ کلام ”خوشبو“ سے زبردست شہرت پائی،انہوں نے کہاکہ ثمینہ راجہ اور رخسانہ صبائ کی نظموں میں بھی عورت کا بھرپور سماجی اور گھریلو سفر پیش کیاگیا ہے، تنویر انجم نے ”مابعد جدید حسیت، نثری نظم اور نئی نسل“پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ نثری نظم لکھنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو مختلف موضوعات پر نظمیں کہہ رہے ہیں، ماحولیاتی نظمیں بھی کہی گئی ہیں جو بے کار اشیائ کی قدر کرنا سکھاتی ہیں جیسا کہ اس تناظر میں احمد ہمیش نے نظمیں کہی ہیں،

نثری نظم اس دور میں ادب کی مقبول صنف بن چکی ہے، انہوں نے کہاکہ قارئین کی نئی نسل میں مختلف لوگ شامل ہیں ان میں وہ لوگ بھی ہیں جن کی زبان اردو ہے اور وہ بھی شامل ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں مگر وہ شاعری میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہوں نے کہاکہ اردو نثری نظمیں عمومی طور پر بہت اعلیٰ اور محصور کن ہوتی ہیں ان نظموں کے اثرات ہمارے سماجی اور سیاسی اقدار سے جڑے ہوتے ہیں ہماری نثری نظمیں خواتین کے صنفی امتیاز کی نفی کرتی ہیں اس طرح یہ نظمیں ان خواتین کی زبان اور اظہار بن جاتی ہیں، انہوں نے کہاکہ اردو نثری نظمیں نہ صرف یہ کہ ہمارے طبقاتی نظام پر تبصرہ کرتی ہیں بلکہ یہ دیگر موضوعات کا احاطہ بھی کرتی ہیں تنویر انجم نے تجویز پیش کی کہ اردو نثری نظم کے سیشن منعقد ہوتے رہنا چاہئیں، انہوں نے کہاکہ ”فکرِ عالمی عمل مقامی“کا نعرہ نثری نظم کے شاعروں کا بھی ہے، نعمان الحق نے لاہور سے آن لائن ”اردو نظم کے متنوع رنگ“ پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ سو برس میں اردو نظم کی شکل ہی بدل گئی ہے مگر اس صدی کے سفر میں ایک کہکشاں سی نظر آتی ہے انسان کو اس سو برس کی نظم نے کائنات سے جوڑ دیا ہے، اقبال، میراجی اور فیض بڑے بڑے نام ہیں، اقبال نے فطرت اور دستِ انسانی میں ایک تعلق پیدا کیا ہے انہوں نے کہاکہ اقبال پر بات کرنا مشکل بھی ہے کیونکہ جب سورج سر پر چمک رہا ہو تو بھلا بات کیسے کی جاسکتی ہے نعمان الحق نے مختلف شعرائ کی نظمیں بھی پڑھ کر سنائیں،نجیبہ عارف نے اسلام آباد سے آن لائن ”اردو نظم پر نائن الیون کے اثرات“ پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ شاعری انسان کے انتہائی گہرے اور اندرونی احساسات سے تعلق رکھتی ہے ایک شاعر اندر کی آگ کو چھونے اور اسے اپنے اظہار کے ذریعے باہر لانے کا کام کرتا ہے ملکی حالات پر بات ہو تو شاعر کے اندر کی آگ باہر نکل ہی آتی ہے انہوں نے کہاکہ نائن الیون کے بعد شاعری تین حصوں میں تبدیل ہوگئی یہ وہ نظمیں ہیں جو نائن الیون کے فوراً بعد لکھی گئی ہیں ان نظموں میں اس عمل کو مکافاتِ عمل بھی قرار دیاگیا ہے توکہیں امریکی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے، انہوں نے کہاکہ نسیم سید کی نظم ”بمباری“ یونس جاوید کی نظم ”علی بابا کہاں ہو تم“ اور دیگر شعرائ کی نظمیں اس تناظر میں بہت اہم ہیں، کشور ناہید نے تو نائن الیون کے واقعہ پر اپنا پورا مجموعہ شائع کیا ہے جبکہ آفتاب شمیم نے اپنی نظموں میں اس واقع کو ایک عالمی سانحہ کے بجائے انسانی سانحہ کے طور پر محسوس کیا ہے، انہوں نے کہاکہ یہ نظمیں ہزاروں انسانوں کا نوحہ بن جاتی ہیں جبکہ بعض نظموں میں نائن الیون کے واقعہ کا براہِ راست ذکر موجود نہیں ہے مگر اس واقعہ کا تذکرہ ضرور ملتا ہے، انہوں نے کہاکہ نائن الیون کا موضوع نثر سے زیادہ آزاد اور نثری نظموں میں زیادہ نظر آیا ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں