پارلیمنٹ کو چیئرمین نیب کو سزا دے کرجیل بھیجنے کا بھی اختیار حاصل ہے

سول جج کی عدالت کی طرح پارلیمنٹ کے پاس بہت زیادہ اختیار ہے، اگر چیئرمین نیب پیش نہیں ہوتے اور دستاویزات جمع نہیں کرواتے تو قائمہ کمیٹی ان کوسزا دے کر جیل بھجوا سکتی ہے۔ سینئر قانون دان اعتراز احسن کی گفتگو

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعرات 21 جنوری 2021 21:09

پارلیمنٹ کو چیئرمین نیب کو سزا دے کرجیل بھیجنے کا بھی اختیار حاصل ہے
اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21 جنوری 2021ء) پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر مرکزی رہنماء اور قانون دان اعتراز احسن نے کہا ہے کہ پارلیمان کی قائمہ کمیٹی کو چیئرمین نیب کو سزا دینے کا بھی اختیار حاصل ہے، سول جج کی عدالت کی طرح پارلیمنٹ کے پاس بہت زیادہ اختیار ہے، اگر چیئرمین نیب پیش نہیں ہوتے اور دستاویزات جمع نہیں کرواتے تو قائمہ کمیٹی ان کوسزا دے کر جیل بھجوا سکتی ہے۔

انہوں نے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کی جانب سے چیئرمین نیب کو طلب کرنے کے سے متعلق بتایا کہ جب سپریم جوڈیشل کونسل افتخار چودھری کا کیس لگا ، تو اجلاس ان کیمرہ ہوتا تھا، پیشی پر پیشی پڑ رہی تھی ، میں دیکھتا تھا کہ پانچ میں سے تین ججز کی اکثریت سے فیصلہ ہونا تھا ،لیکن کوئی نوٹس نہیں لیا جارہا تھا، میں بحث کررہا 1935ء کے ایک فیصلے کا حوالہ دے کر،جس پر میں نے افتخار چودھری کو کہا کہ کیس کا فیصلہ ہمارے خلاف آنا ہے، کہنے لگے کیوں؟ میں نے کہا کہ یہ تو نوٹس نہیں لے رہے، کچھ لکھ ہی نہیں رہے، فیصلہ تو لگتا پہلے سے لکھا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

کہتے کیا کریں؟ میں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیں ۔ کہنے لگے سپریم جوڈیشل کونسل میں سپریم کورٹ سے بھی زیادہ سینئر ججز بیٹھے ہوئے ہیں، میں نے کہا کہ اس فیصلے کو ایک سول جج کی عدالت میں بھی چیلنج کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ عدالت نہیں ایک ٹریبونل ہے۔ ٹریبونل کوئی بھی ہو سول جج بھی سن سکتا ہے ،اس کیس میں پارلیمنٹ کی کمیٹی کو سول جج کی عدالت والا ہی اختیار ہے، پارلیمنٹ کو بہت زیادہ اختیار ہے، اگر چیئرمین نیب پیش نہیں ہوتے اور اپنا مئوقف یا دستاویزات جمع نہیں کرواتے تو قائمہ کمیٹی ان کوطلب کرسکتی ہے، سزا دے کر جیل بھجوا سکتی ہے۔

واضح رہے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی کی درخواست پر پارلیمان کی قائمہ کمیٹی نے چیئرمین نیب کو طلب کررکھا ہے، چیئرمین نیب سے کیسز کی انکوائریوں اور نیب حراست میں ہونے والی اموات بارے بھی جواب مانگا گیا ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں