باغوں کا شہر لاہور جس کی ثقافت اور روایات کو اربنائزیشن نگل گئی

چار ہزار سال پرانا شہر دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے ‘شہر کی تاریخی عمارتیں تباہی کا شکار ہیں.رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 1 مارچ 2021 13:38

باغوں کا شہر لاہور جس کی ثقافت اور روایات کو اربنائزیشن نگل گئی
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔یکم مارچ ۔2021ء) باغوں اور کالجوں کا شہر کہلانے والا تاریخی شہر لاہور اپنی روایتی ثقافت اور اقدار کھوتا جارہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ اربنائزیشن ہے جسے 1980سے لے کر آج تک کسی حکومت نے روکنے کی کوشش نہیں کی گئی. ڈیڑھ سو مربع کلومیٹر سے زیادہ تک پھیل جانے والا یہ شہر 1980کی دہائی میں تقریبا20سے22لاکھ نفسوس پر مشتمل ایسا شہر تھا جس میں ٹھوکر نیازبیگ‘رائے ونڈ روڈ‘بحیرہ ٹاﺅن ‘جوہرٹاﺅن اور نہر کے پار دیگر آبادیاں اس کے نواحی دیہات پر مشتمل تھے اسی طرح ڈیفنس اور گرد ونواح کے علاقے بھی دیہی علاقوں پر مشتمل تھے جہاں سے شہر کی خوراک ‘سبزیوں‘دودھ‘گوشت اور دیگر ضروریات پوری ہوتی تھی مگر آج وہی لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے جبکہ آج لاہور کی آبادی ڈیڑھ سے دوکروڑکے درمیان ہے .

حال ہی میں برطانیہ کی کیمرج یونیورسٹی میں ایک سیمنارکے دوران ماہرین نے انکشاف کیا کہ لاہور تاریخی طور پر ہڑپہ اور مونجودڑو سے کسی بھی طور کم نہیں ہے لاہور میں 1959میں برطانوی ماہرین کو اندرون شہر کے محلہ مولیاں سے4ہزار سال پرانے نودرات ملے تھے لاہور دنیا کا منفر دشہر ہے جس میں 460تاریخی عمارتیں موجود ہیں ماہرین کا ماننا ہے کہ لاہور کے مقابلے میں دہلی، لکھنو‘ دکن، حیدرآباد، پونا اور ممبئی سب نسبتاً نئے شہر ہیں ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ محلہ مولیاں ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ یہاں کبھی مہاتما بدھ آ کر ٹھہرے تھے .

لاہور کی بدقسمتی ہے کہ لاہوری ہونے کے دعویدار میاں نوازشریف اور ان کے بھائی میاں شہبازشریف کے وزارت اعلی کے ادوار میں اس شہر کو بغیر کسی منصوبہ بندی کے پھیلانے اور وسعت دینے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک رکنے کا نام نہیں لے رہا1980کی دہائی تک ملتان روڈ پر شہر سیکم موڑ کے بعد ‘فیروزپور روڈ پر چونگی امرسدھو کے بعد اور جی ٹی روڈ پر دریائے راوی کے پل سے لاہور شہر ختم ہوجاتا تھا اسی طرح پاک بھارت سرحد کی طرف جانے والے جی ٹی روڈ پر شالمیار کے بعد اور کینال روڈ پر مغل پورہ کو پار کرتے ہی لاہور شہر کی حدود ختم ہوجاتی تھیں مگر اصل لاہور اور اس کے باسی توسیعی منصوبوں میں کہیں گم ہوچکے ہیں .

آج لاہور شہر سنبھالے نہیں سنبھل رہا ایک طرف شہر کے بیشتر علاقے کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے اٹے پڑے ہیں جبکہ دوسری جانب لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں شہر کی فضا کو زہر آلود بنا رہی ہیں حال ہی میں ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ میں بھی شہر میں ضرورت سے زیادہ گاڑیوں کو فضائی آلودگی کو بڑھانے کا بڑا ذریعہ قراردیا گیا ہے آج شہر کے پاس خوراک‘تازہ سبزیوں‘دودھ اور گوشت کی سپلائی ایک بڑا مسلہ بنتی جارہی ہے اور آنے والے سالوں میں حالات کے مزید خراب ہونے کی پشین گوئی کی گئی ہے.  آج کے لاہور میں جگہ جگہ کوڑا کرکٹ اور گندگی کے ڈھیر لگے ہیں اور شہر بھر میں تعفن نے شہریوں کا جینا محال کر دیا ہے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی روزانہ کوڑا اٹھارہی ہے مگر شہر کی آبادی اور پھیلاﺅ کے مقابلے میں اس کے پاس موجود ورک فورس اور مشنری کی کمی ہے لاہور کی حکومتی مہم ،کے باوجود شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ہیں اور اہم شاہراہوں سے گزرنے والے شہریوں کو مشکل کا سامنا ہے جب کہ تعفن نے سانس لینا الگ محال کر دیا ہے.

لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی جانب سے کوڑا کچرا نہ اٹھانے کے باعث وبائی امراض کے پھیلنے کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے شہریوں کا کہنا ہے کہ تعفن سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔

(جاری ہے)

اب تو ماسک لگا کر بھی گزرنا مشکل ہوگیا ہے، تعفن و بدبو نے جینا محال کردیا ہے اور شہری بیمار ہونا شروع ہو گئے ہیںلاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی انتظامیہ کا موقف ہے کہ اتنے بڑے شہر کے لیے 14 ہزار ورکرز تین شفٹوں میں کوڑا اٹھانے پر مامور ہیں جبکہ شہر میںروزانہ کی بنیاد پر8سے 10 ہزار ٹن کوڑا پیدا ہورہا ہے جس میں آنے والے سالوں میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ شہر کے پھیلاﺅ کا سلسلہ جاری ہے.

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں