’لوگ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں‘ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا پنجاب حکومت پر اظہار برہمی

ایکوائر کی گئی اراضی کا بروقت معاوضہ نہ دینا سرکار کا غریب لوگوں پر ظلم ہے، اگر ادائیگی نہ کی گئی تو 15 جولائی کے بعد حکومت کو ایک لاکھ روپے روزانہ جرمانہ کروں گا۔ چیف جسٹس قاسام خان کے ریمارکس

Sajid Ali ساجد علی پیر 14 جون 2021 13:09

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 14 جون 2021ء ) لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے اراضی کے معاوضے کی عدم ادائیگی پر پنجاب حکومت پر برہمی کا اظہار کردیا ، کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ حکومت نے شہریوں سے زمین لے لی ، اس پر سڑکیں بھی بنالیں مگر رقم ادا نہیں کی ، جس کی وجہ سے لوگ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ، اگر ادائیگی نہ کی گئی تو 15 جولائی کے بعد ایک لاکھ روپے روزانہ جرمانہ کروں گا۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے ایک شہری شریفاں بی بی کی درخواست پر سماعت کی، جہاں درخواست گزار خاتون کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ حکومت نے سڑک بنانے کے لئے کئی سال قبل اراضی ایکوائر کی لیکن ابھی تک معاوضہ نہیں دیا گیا ، جس کی بناء پر درخواست گزار خاتون نے عدالت سے معاوضے کی ادائیگی کا حکم دینے کی استدعا کی۔

(جاری ہے)

کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے ریمارکس دئیے کہ خاتون سے زمین لے لی ، اس پر سڑکیں بھی بنالیں مگر رقم ادا نہیں کی ، لوگ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ، اگر ادائیگی نہ کی گئی تو 15 جولائی کے بعد ایک لاکھ روپے روزانہ جرمانہ کروں گا۔ جس کے بعد پنجاب کی صوبائی حکومت کی طرف سے سرکاری وکیل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ تین دن میں 3 کروڑ 8 لاکھ روپے کی ادائیگی کردی جائے گی، تاہم سرکاری وکیل نے بقیہ 92 لاکھ کی ادائیگی کے لیے 15 جولائی تک کی مہلت کی استدعا کی ، جس پر لاہور ہائیکورٹ نے صوبائی حکومت کو معاوضے کی ادائیگی کے لئے مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔

چند روز قبل چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا تھا کہ 5 جولائی کو ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے اور اہلخانہ کو پولیس سے خطرہ ہو گا ، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے یہ ریمارکس شہری کی جائیداد پر قبضے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دیے ۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ پولیس والے درخواست گزار کے گھر گئے تھے،چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست زیر التوا ہے آپ کو ایسی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی کہ آپ جائیں اور پتہ چیک کریں، ایسا کرنے کا کس نے کہا تھا ، ایس پی صدر نے جواب دیا کہ ڈی آئی جی لیگل سے مشاورت کی تھی کہ جا کر تم درخواست گزار کا پتہ چیک کرو؟ ایس ایچ او نے جواب دیا کہ کسی کی ہدایت پر نہیں بلکہ خود گیا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ایس ایچ او نے تسلیم کیا کہ اس نے نہ تھانے جاتے ہوئے اور نہ ہی واپسی پر رپورٹ کا اندراج کیا۔ عدالت نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ کیا ابھی ایس پی پر فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے ، کیوں نہ انہیں چھ ماہ کی قید کی سزا سنا دوں ، وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں جو بڑوں کو چھوڑ کر چھوٹوں کو پکڑ لیتی ہے۔ایس پی صدر حفیظ الرحمن نے درخواست کی عدالت سے معافی چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس نے معافی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو چھ ماہ کی سزا سنانی ہے ، پولیس والوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے ، کل اپنے بیج وغیرہ اتار کر آنا،مجھے پتہ ہے کہ میری ریٹائرمنٹ کے بعد پولیس نے میری زندگی اجیرن کر دینی ہے ، 5 جولائی کے بعد مجھے اور میرے اہلخانہ کو پولیس نے خطرہ ہو گا لیکن کل تیار ہو کر آنا،تمہیں سزا سنانی ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں