موجودہ حکومت نے مضبوط پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہی:فواد چوہدری

انشاء اللہ پاکستان کا مستقبل تابناک اور روشن ہے۔ مولانا ظفر علی خان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ذمہ دارانہ صحافت کی روش اپنائی جائی: وزیر اطلاعات

ہفتہ 27 نومبر 2021 21:45

موجودہ حکومت نے مضبوط پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہی:فواد چوہدری
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 نومبر2021ء) موجودہ حکومت نے مضبوط پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے اور انشاء اللہ پاکستان کا مستقبل تابناک اور روشن ہے۔ مولانا ظفر علی خان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ذمہ دارانہ صحافت کی روش اپنائی جائے۔آزادئ صحافت کی آڑ میں جھوٹی خبریں پھیلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔جدید ذرائع ابلاغ کی موجودگی میں جھوٹی خبریں پھیلانا بہت آسان ہو گیا ہے۔

پاکستان میں آزادئ صحافت اور جمہوری روایات کا فروغ دیگرکئی ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ان خیالات کااظہار وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘شاہراہ قائداعظمؒ لاہور میں تحریک پاکستان کے رہنما‘ بابائے صحافت‘ قادرالکلام شاعر اورآل انڈیا مسلم لیگ کے بانی رکن مولانا ظفر علی خان کی65ویں برسی کے موقع پر منعقدہ خصوصی نشست کے دوران کیا۔

(جاری ہے)

نشست کا اہتمام نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن مجید‘ نعت رسول مقبولؐ اور قومی ترانہ سے ہوا۔ تلاوت کی سعادت حافظ محمد اسلم حق نے حاصل کی جبکہ حافظ مرغوب احمد ہمدانی نے بارگاہٴ رسالت مابؐ میں ہدیہٴ عقیدت اور محمد کلیم نے کلام ظفر علی خان پیش کیا۔ نشست کی نظامت کے فرائض نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے اداکئے۔

نشست کے مہمان خاص وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے کہا میں نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ کی انتظامیہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اس ادارہ سے ہمیشہ تحریک پاکستان اور کارکنان تحریک پاکستان کی بات کی جاتی ہے :>، یہ ایک ایسا فورم ہے جو ان بزرگوں کی یاد مناتا ہے جنہوں نے پاکستان کیلئے اپنا تن من دھن قربان کر دیا تھا۔ مجھے فخر ہے کہ میرا تعلق بھی ایک ایسے خاندان سے ہے جس نے تحریک پاکستان میں بڑا سرگرم کردار ادا کیا۔

میرے دادا چوہدری اویس قیام پاکستان سے قبل قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے جبکہ میرے چچا چوہدری الطاف مغربی پاکستان کی اسمبلی کے رکن رہے جبکہ انہوں نے متعدد اہم عہدوں پر اپنے فرائض انجام دیے۔ انہوں نے کہا آج مولاناظفر علی خان کا دن ہے جنہیں پاکستان میں بابائے صحافت کہا جاتا ہے۔ مولانا ظفر علی خان کے والد نے 1903ء میں زمیندار اخبار کا اجراء کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے لاہور اردو پریس کا مرکز بن گیا۔

انہوں نے تجویز دی کہ نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ حکومت کے ساتھ ملکر لاہور میں ایک ایسا میوزیم قائم کرے جہاں ہندوستان میں میڈیا کے ارتقاء اور تحریک پاکستان میں میڈیا کے کردار کو اجاگر کیا جاسکے۔ لاہور میں موجود اردو بازار ایک تاریخی بازار ہے جو کتاب اور پرنٹنگ سے شغف رکھنے والوں کا مرکز رہا ہے اور یہاں سے اردو زبان کی ترویج و اشاعت کیلئے بڑا کام ہوا۔

انہوں نے کہا کہ تحریک پاکستان کو زیادہ جذبہ تحریک خلافت سے ملا ، اس تحریک میں بی اماں اور ان کے دو بیٹوں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کا کردار نہایت اہم ہے ۔ تحریک پاکستان کے دوران عالم اسلام پاکستان کے قیام کو مسلمانوں کی نشاة ثانیہ کے طور پر دیکھ رہا تھا کہ ایک جدید اسلامی فلاحی مملکت قائم ہو گی۔ برطانیہ اور امریکہ میں پاکستان کو ایک نئی مسلم سپر پاور کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔

پاکستان قائم ہو گیا تو شومئی قسمت ایک سال بعد ہی قائداعظمؒ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ پاکستان بیرونی سازشوں کا شکار بنا اور لیاقت علی خان کے قتل کے بعد قیادت کا ایک خلاء پیدا ہو گیا جس سے تحریک پاکستان کے مقاصد کے حصول کو بھی دھچکا لگا اور یہ مشن آگے نہ بڑھ سکا۔ 1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان نے بھی اس فلسفہ کو دھچکا پہنچایا۔ ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان آج بھی عالم اسلام کا انتہائی اہم ملک ہے اور یہاں آزادئ صحافت اور جمہوری اقدار دیگر اسلامی ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔

پاکستان کے ادارے بڑے مضبوط ہیں اور ہم ان کا موازنہ تھرڈ کے بجائے فرسٹ ورلڈ سے کرتے ہیں۔ مسائل ضرور ہیں اور ان کو حل بھی کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ مذہبی احکامات کی اپنی مرضی کی تشریح کرنا بھی ہے ۔ یاد رکھیں نبی کریمؐ رحمت المسلمین نہیں بلکہ رحمت اللعالمین بنا کر بھیجے گئے اور آپؐ پوری انسانیت کیلئے رحمت ہیں۔

1930ء میں علامہ محمد اقبالؒ نے بڑے واضح انداز میں فرمایا کہ مذہب کی تشریح کسی فرد کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔ لیکن اس حوالے سے آج پارلیمنٹ کمزور اور باہر کے گروپ مضبوط ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ اختیار واپس پارلیمنٹ کو دلانا ہے جو اجتہاد یا مذہبی احکامات کی تشریح کر سکے۔ پارلیمنٹ کا بنایا لفظ حتمی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے خبر ہوتی تھی لیکن اسے پھیلانے کے ذرائع نہیں تھے جبکہ آج جدید ذرائع ابلاغ کی موجودگی میں جھوٹی خبریں پھیلانا بھی بہت آسان ہو گیا ہے۔

یہ مسئلہ پاکستان ہی میں نہیں دنیا بھر میں جنم لے چکا ہے ۔ آزادئ صحافت کی آڑ میں جھوٹی خبریں پھیلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ اس قدم سے صحافتی آزادیوں پر کوئی قدغن نہیں لگے گی۔ پاکستان میں پرنٹ و الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا بہت بڑا نیت ورک کام کر رہا ہے اس لئے ہم نے توازن رکھنا ہے اور ساری دنیا اس کیلئے جدوجہد کر رہی ہے کہ فیک نیوز کو کیسے کنٹرول کرنا ہے۔

گزشتہ دنوں جعلی آڈیو ویڈیوٹیپس سامنے آئیں اور غلط اطلاعات پھیلائی گئیں ۔میں ایسا کام کرنیوالی سیاسی جماعت سے کہنا چاہوں گاکہ وہ سیاست چھوڑ کر فلمیں بنانا شروع کر دیںاس سے ان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 1947ء سے لیکر 2008ء تک چھے ہزار ارب روپے قرض لیا جبکہ 2008سے 2018ء کے دوران 23ہزار ارب روپے قرض لیا گیا۔

جب آپ اتنا قرض لے لیں گے تو آپ کو آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی پڑے گا۔ اب عمران خان نے آ کر مضبوط پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے اور انشاء اللہ پاکستان کا مستقبل تابناک اور روشن ہے۔ مولانا ظفر علی خان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ذمہ دارانہ صحافت کی روش اپنائی جائے۔ وائس چیئرمین نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ میاں فاروق الطاف نے کہا کہ آزادی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت پر ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کریں ‘کم ہے۔

مسلمانان برصغیر اس لحاظ سے بڑے خوش قسمت ثابت ہوئے کہ انہیں قائداعظم محمد علی جناحؒ جیسا عظیم قائد مل گیا جن کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانوں نے آزادی کی نعمت حاصل کر لی۔ تحریک پاکستان میں قائداعظمؒ کو ان رہنمائوں کی رفاقت نصیب ہوئی جن کے دامن ہر طرح کی آلائشوں سے پاک تھے اور انہوں نے اپنا تن من دھن پاکستان کیلئے قربان کر دیا۔

انہی عظیم شخصیات میں ایک شخصیت مولانا ظفر علی خان کی بھی ہے جنہوں نے اپنی بے داغ صحافت اور تقریر و تحریر کے ذریعے مسلمانان برصغیر میں آزادی کی تڑپ پیدا کی۔ مولانا ظفر علی خان نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن کلمہ حق کہنا نہیں چھوڑا۔ مولانا ظفر علی خان کی سیاست وصحافت آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان میں آزادئ صحافت کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

ہمیں جھوٹ، منافقت اور کرپشن سے دور رہنا چاہئے۔ چیئرمین نیشنل پریس ٹرسٹ منیر احمد خان نے کہا کہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اور قیام پاکستان سے قبل بھی اہل صحافت نے بڑی جرأت سے حکمرانوں کا مقابلہ کیا۔ مولانا ظفر علی خان نے بھی جرأت و بہادری سے انگریزوں کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ فیک نیوز نے معاشرہ کو تباہ کر دیا ہے ، ہمیں مولانا ظفر علی خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حق بات کہنا اور لکھنا چاہئے۔

سینئر صحافی اور دانشور مجیب الرحمن شامی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مولانا ظفر علی خان کسی بڑے جاگیردار یا زمیندار کے بیٹے نہیں تھے بلکہ انہوں نے ایک عام گھرانہ میں آنکھ کھولی اور اپنی محنت کے بل پر منفرد مقام بنایا۔ انہوں نے زمیندار اخبار بھی نکالا، جو ایک ایسا اخبار ہے جس کے تذکرہ کے بغیر تحریک پاکستان اور ہماری صحافت ادھوری ہے۔

مولانا ظفر علی خان تحریک پاکستان کے سرخیل تھے ، انہوں نے عمر بھر جہد مسلسل کو اپنا شعار بنائے رکھا ، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیںلیکن اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ مولانا ظفر علی خان عالم اسلام کا اثاثہ تھے۔ان کے اخبار زمیندار کے دفتر کو قابض لوگوں سے آزاد کرایا جائے اور یہاں پر ایک میوزیم بنایا جائے جس کا تذکرہ فواد چوہدری نے اپنے خطاب میں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج جھوٹی خبریں بھی لوگوں میں پھیلائی جا رہی ہیں ۔ ایک اخبار نویس کو کسی کی خوشنودی یا ناراضی کی پرواہ کے بجائے سچ کے ساتھ جڑنا چاہئے۔ لیکن آج جھوٹ پر بھی یقین کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان نسل جہد مسلسل کو اپنا شعاربنائے اور مولانا ظفر علی خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سچ کا ساتھ دیں۔مولانا ظفر علی خان لگی لپٹی کے بغیر حق بات کہا کرتے تھے ۔

چیئرمین مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ خالد محمود نے کہا کہ کسی قوم میں عظیم شخصیات کی موجودگی اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوتا ہے ، انیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں اللہ تعالیٰ نے اس قوم میں مولانا ظفر علی خان، قائداعظمؒ اور علامہ محمد اقبالؒ جیسی عظیم شخصیات پیدا کیں جنہوں نے اسلامیان ہند کو غلامی سے نجات دلانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ہمیں اپنے ان محسنوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔

سینئر صحافی سلمان غنی نے کہا کہ قائداعظمؒ نے ایک بار کہا اگر مجھے ظفر علی خان جیسے چند افراد ہی مل جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج کی صحافت مولانا ظفر علی خان کی صحافت سے کس حد تک مطابقت رکھتی ہی پاکستان کی صحافت کو قومی مفادات کی محافظ، اداروں کی عزت واحترام ، انسانی حقوق کی علمبردار اور قومی مسائل کے حل کی نشاندہی کے ساتھ مشروط کرنا ہو گا۔

مولانا ظفر علی خان اسلامیانِ ہند کے حقوق کے ترجمان تھے۔ ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر شفیق جالندھری نے کہا کہ مولانا ظفر علی خان مسلمانان برصغیر کے بہت بڑے محسن اور رہنما تھے۔ وہ ہمہ جہت شخصیت تھے ۔ انہوں نے اردو صحافت کو منفرد مقام دلوایا۔ وہ سچے مسلمان اور نڈر و بیباک انسان تھے۔ صدر نظریہٴ پاکستان فورم سرگودہا پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے کہا کہ مولانا ظفر علی خان قائداعظمؒ کے دست راست تھے اور انہوں نے تحریک پاکستان میں کلیدی کردار ادا کیا۔

انہوں نے ہمیشہ قلم کے تقدس کا خیال رکھا۔ وہ بہت اچھے مترجم تھے اور فی البدیہہ شعر کہتے تھے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے افکارونظریات کو حرز جاں بنایا جائے۔شاہد رشید نے کہا کہ مولانا ظفر علی خان ہمہ جہت شخصیت تھے‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ آپ کی خداداد قابلیت اور صلاحیتوں کے بڑے معترف تھے۔ مولانا ظفر علی خان نے اپنی پوری زندگی اسلامیان ہند کی فلاح وبہبود کیلئے وقف کر رکھی تھی۔

آپ بہت بڑے عاشق رسولؐ تھے۔ مولانا ظفر علی خان نے اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے مسلمانان برصغیر میں آزادی کی تڑپ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔اس موقع پرممتاز سیاسی و سماجی رہنما بیگم مہناز رفیع، ڈائریکٹر مجلس ترقی ادب لاہور منصور آفاق، دفاعی تجزیہ کار کرنل(ر) زیڈ آئی فرخ، عامر کمال صوفی، ڈاکٹر ثمینہ بشریٰ، لیاقت علی قریشی، اساتذہٴ کرام اور طلبا وطالبات سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد موجود تھی ۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں